ذہنی صحت کا سبق اساتذہ کو بھی پڑھایا جائے ۔ وزیر صحت
یونیسیف نے اسٹیٹ آف ورلڈ چلڈرن رپورٹ جاری کی ۔
 21 ممالک میں یونیسیف کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق، ہندوستان میں صرف 41 فیصد نوجوانوں کا خیال ہے کہ انہیں ذہنی صحت کی پریشانیوں کے لیے کسی اور سے مدد لینی چاہئے، جبکہ 21 دیگر ممالک کے اوسطاً 83 فیصد نوجوان ذہنی دباؤ میں دوسروں کی مدد لینا مناسب سمجھتے ہیں ۔
نئی دہلی، 8 اکتوبر، 2021 مرکزی وزیر صحت و خاندانی بہبود نے ذہنی صحت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اندرونی طور پر جسمانی صحت کی تندرستی سے جڑا ہوا معاملہ ہے اور ہمارے مضبوط روایتی علم کا لازمی جزو بھی ہے ۔ 
 انہوں نے کہا کہ حکومت ہند نے اساتذہ کے نصاب میں ذہنی صحت کی تفہیم کو شامل کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے، کیونکہ اساتذہ بچوں کے لیے معاون ستون کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مرکزی وزیر صحت نے کہا کہ والدین، خاندانوں اور برادریوں کا کردار بچوں کو سننے اور ان کی ذہنی صحت کے مسائل کے بارے میں بات کرنا ہے تاکہ وہ انہیں جلد حل کرنے میں مدد ملے ۔ معلوم ہو کہ مرکزی صحت و خاندانی بہبود وزیر یونیسیف کے ذریعہ جاری کردہ رپورٹ 'دی اسٹیٹ آف ورلڈ چلڈرن رپورٹ 2021' پر میڈیا سے خطاب کر رہے تھے ۔ رپورٹ ورچوئل پلیٹ فارم پر جاری کیا گیا ہے ۔
بھارت کے نوجوانوں اور بچوں پر کووڈ ۔ 19 وبائی مرض کا اثر آنے والے کئی سالوں تک جاری رہ سکتا ہے ۔  منگل کے دن یونیسیف نے مرکزی وزیر صحت و خاندانی بہبود، حکومت ہند، من سکھ مانڈویہ کے ذریعہ جاری کردہ رپورٹ میں اس کے بارے میں خبردار کیا ۔
 اس موقع پر ہندوستان میں یونیسیف کی نمائندہ ڈاکٹر یاسمین علی حق ، سکریٹری صحت جناب راجیش بھوشن، غیر مواصلاتی امراض کے جوائنٹ سیکریٹری جناب وشال چوہانند ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز کی ڈائریکٹر پرتما مورتی بھی موجود تھیں ۔
 مرکزی وزیر صحت و خاندانی بہبود من سکھ مانڈویہ نے اپنے خطاب میں نوجوانوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے خیالات کو ساجھا کرنے اور سنے جانے میں اہم کردار ادا کریں، انہوں نے کہا کہ حکومت ہند بچوں کی ذہنی صحت اور بہبود کے لئے ایک بہتر اور معاون ماحول بنانے کے لئے با عہد ہے، پھر چاہیں اس کے لئے پالیسی کی سطح پر ہو یا پھر زیادہ سرمایہ کاری کے ذریعہ نوجوانوں کو متحد کرنا ہی کیوں نہ ہو ۔ مرکزی وزیر صحت نے کہا کہ مجموعی صحت کو یقینی بنانے کے لیے ذہنی صحت کو صحت عامہ کا لازمی حصہ بنانے کی ضرورت ہے، مرکزی وزارت برائے صحت و خاندانی بہبود نوجوانوں کی بہتر ذہنی صحت کے لئے ان کے ساتھ کام کرنے اور انہیں بدلاؤ کے بہتر مواقع دینے کی اہمیت کو دھیان میں رکھ کر کام کر رہی ہے ۔ 
 یونیسیف نے 'دی اسٹیٹ آف ورلڈ چلڈرن رپورٹ 2021' میں بچوں، نوعمروں اور دیکھ بھال کرنے والوں کی ذہنی صحت پر تقابلی مطالعہ کیا ہے ۔  رپورٹ کے مطابق، کووڈ ۔ 19 وبائی مرض نے بچوں کی ذہنی صحت پر گہرا اثر ڈالا ہے ۔ 
 بھارت میں بچوں نے اس وقت بہت ہی مشکل دور کا سامنا کیا، وبائی بیماری نے انفیکشن کے خطرے کے ساتھ کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دیں ۔ وبا کی دوسری لہر نے سال کے آغاز میں ایسے وقت دستک دی جب لوگ ذہنی طور پر ایسے کسی بھی چیلنج کے لیے تیار نہیں تھے ۔  بچوں نے ایسے غیر یقینی دور کو دیکھا جو کسی بھی بچے کے لیے معمول کی بات نہیں تھی ۔ یونیسیف کی بھارت میں نمائندہ ڈاکٹر یاسمین علی حق نے کہا کہ بچے خاندان، دوستوں، کلاسوں سے ہی دور نہیں ہوئے بلکہ کئی بچے ناقدری اور زیادتی کا نشانہ بھی بنے، بچوں کی ذہنی صحت پر کووڈ 19 وبائی مرض کے اثرات کے بارے میں ہمارے پاس معلومات بہت کم ہے، ڈاکٹر یاسمین علی حق نے کہا کہ میں مرکزی وزیر صحت و خاندانی بہبود من سکھ مانڈاویہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ انہوں نے بچوں کی ذہنی صحت کے بارے میں یونیسیف کی عالمی رپورٹ میں شامل نکات کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس تناظر میں نمٹنے کے لئے قومی اقدام کی قیادت بھی کی ۔ 
 یونیسیف اور گیلپ کی جانب سے 2021 کے آغاز میں 21 ممالک کے 20 ہزار بچوں اور بڑوں پر کیے گئے سروے کے مطابق، بھارت کے بچے ذہنی دباؤ کے صورت میں کسی اور کی مدد لینے میں ہچکچاتے ہیں، بھارت میں 15 سے 24 سال کی عمر کے درمیان کے صرف 41 فیصد نوجوانوں کا ماننا ہے کہ ذہنی دباؤ کے صورت میں دوسروں سے مدد لینا چاہیے، جبکہ 21 دیگر ممالک کے اوسطاً 83 فیصد نوجوان مدد لینے کو درست مانتے ہیں ۔ سروے کے مطابق، سروے میں شامل تمام ممالک میں بھارت ہی واحد ایسا ملک ہے، جہاں ایسے نوجوانوں کا فیصد بہت کم ہے جو یہ مانتے ہیں کہ ذہنی صحت کے مسائل دوسروں سے ساجھا کرنے چاہئیں۔ جبکہ دیگر ممالک کے نوجوانوں کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ ذہنی صحت کے مسائل میں دوسروں سے مشورہ لینا مناسب ہے ۔ 21 دیگر ممالک میں 83 فیصد نے اس خیال کی حمایت کی کہ ذہنی دباؤ کی صورت میں دوسروں سے مشورہ لیا جانا چاہئے ۔ 
 دی اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2021 سروے کے مطابق بھارت میں 15- 24 سال کی عمر کے 14 فیصد بچے یا سات میں سے ایک بچہ دباؤ محسوس کرتا ہے یا پھر اس کی کسی بھی کام میں دلچسپی نہیں رہتی ۔ کیمرون میں یہ تناسب تین بچوں میں ایک، بنگلہ دیش اور بھارت میں ہر سات میں ایک بچہ میں ذہنی تناؤ، جبکہ ایتھوپیا اور جاپان میں یہ تناسب ہر دس بچے پر ایک دیکھا گیا ۔  جبکہ دیگر 21 ممالک میں یہ تناسب اوسطاً ہر پانچ میں ایک پایا گیا ۔ 
کووڈ 19 وبا کے دوران بچوں کی دماغی صورتحال رپورٹ کے مطابق کووڈ بیماری جیسے جیسے تیسرے سال میں داخل ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے وبا کا بچوں کی ذہنی صحت پر اثر گہرا ہوتا جا رہا ہے۔  کووڈ 19 وبائی امراض کے دوران ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے دوران بچوں کو سماجی مدد حاصل نہیں ہوئی ۔ جس کی وجہ سے ان کی باقاعدہ تعلیم، تفریح، خاندان کی باقاعدہ آمدنی اور صحت بھی متاثر ہوئی، اس سب کا اثر یہ ہوا کہ بچوں میں ڈر اور خوف کی وجہ سے غصہ یا چڑچڑاپن بڑھنے لگا، بچے اپنے مستقبل کے بارے میں بھی پریشان نظر آئے ۔ 
یونیسکو کے ذریعہ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، سال 2020-21 کے دوران، ہندوستان میں چھٹی کلاس کے 286 ملین سے زیادہ بچے اسکول نہیں جا سکے یا اسکول سے باہر تھے ۔ یونیسیف کے فوری تعاون کی مدد سے 2021 میں صرف 60 فیصد بچوں کو ڈیجیٹل تعلیم تک رسائی حاصل ہو پائی ۔ جبکہ زیادہ تر بچے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکے ۔
 یونیسیف کی رپورٹ لانچ کے موقع پر، اسمیتا اور پریانشو نے وبائی امراض کے وقت کے اپنے تجربات شیئر کیے کہ کس طرح کووڈ کی وجہ سے ان کے اسکول اور تعلیم متاثر ہوئی، اس سے ان کے مستقبل کی توقعات ختم ہو گئیں ۔ اسی وجہ سے انہیں غصہ، چڑچڑاپن اور عدم تحفظ کا احساس ہوا ۔ پریانشو تھیٹر آرٹسٹ بننا چاہتا ہے جبکہ اسمیتا اپنا مستقبل طب میں بنانا چاہتی ہے ۔
 اس تناظر میں قومی خواتین کمیشن کے اعداد و شمار بھی سنگین ہیں، جس میں یہ کہا گیا کہ کووڈ کے دور میں کمیشن کے پاس بچوں کو نظرانداز کرنے، گھریلو تشدد اور بچوں کے ساتھ زیادتی کی بڑی تعداد میں شکایات موصول ہوئیں، یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ بچے ماضی میں ہنگامی صدمے سے گزرے جس کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے ۔ 
کووڈ کے دور یا وبا سے پہلے بھی رپورٹ کے مطابق بچوں اور نوجوانوں کے ذہن پر تناؤ کا بھاری بوجھ تھا ۔ جس سے نپٹنے کے لئے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی کبھی اس سلسلے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔
 تازہ ترین دستیاب تخمینوں کے مطابق عالمی سطح پر 10 سے 19 سال کی عمر کے سات میں سے ایک نوعمر بغیر شناخت کے ذہنی عارضے کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ نوعمروں میں ذہنی صحت کی دیکھی گئیں ۔
 بھارت میں ذہنی دباؤ میں مبتلا بیشتر بچوں کی پریشانی کو پہچانا ہی نہیں گیا اور ہندوستان کے بچے ذہنی مسائل میں مدد لینے یا علاج میں ہچکچاتے ہیں ۔  انڈین جرنل آف سائیکائٹری کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق، وبائی مرض سے پہلے بھی ہندوستان میں 50 ملین بچے کسی نہ کسی طرح کی ذہنی پریشانی کا شکار تھے، جس میں 80 سے 90 فیصد بچوں کو کسی قسم کی مدد نہیں ملی ۔
 دریں اثنا، یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ذہنی صحت کی ضروریات اور ذہنی صحت کی سرمایہ کاری کے درمیان ایک وسیع فرق باقی ہے ۔ انڈین جرنل آف سائیکائٹری سال 2017 کے مطابق ، بھارت نے دماغی صحت پر اپنے سالانہ بجٹ کا صرف 0.05 فیصد ہی خرچ کیا ہے ۔
سماج کا نقصان 
پہچان کئے گئے ذہنی صحت کے متعلق پریشانی جیسے ADHD (Attention Deficit Hyperactivity Disorder) اضطراب یا بے چینی، آٹزم، بائیو پولر ڈس آرڈر، رویے کے مسائل، ڈپریشن، کھانے کی خرابی، دانشورانہ معذوری اور شیزوفرینیا جیسی پریشانیاں نہ صرف بچوں اور نوجوانوں کی صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ یہ ان کی معاشی اور سماجی حیثیت کو بھی متاثر کرتی ہیں ۔
ذہنی صحت کے مسائل کا بچوں کی زندگی پر اثرات کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن 2020 کی رپورٹ کے مطابق دماغی صحت کی پریشانیوں کی وجہ سے 2012-2030 کے درمیان ہندوستان میں 1.03 ٹریلین امریکی ڈالر کا معاشی نقصان ہونے کا اندازہ ہے ۔ 
مثبت پہلو 
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی دنوں سےجینیات، تجربہ اور ماحولیاتی وجوہات کا ملا جلا اثر، جس میں پرورش، اسکولی تعلیم، رشتوں کا معیار، تشدد یا زیادتی کے رابطہ میں آنا، امتیازی سلوک، غربت، انسانی بحران اور صحت کی ہنگامی صورتحال جیسے کووڈ 19 شامل ہے، یہ تمام ایسے پہلو ہیں جو زندگی بھر بچوں کی ذہنی صحت کو شکل دیتے اور متاثر کرتے ہیں ۔ 
جبکہ بچوں کو بچپن میں ملی جذباتی مدد، حفاظت، محفوظ دیکھ بھال، محبت کرنے والے افراد، محفوظ ماحول، مثبت ماحول، ساتھیوں یا خاندان کے افراد کی مثبت مدد وغیرہ، مستقبل میں ذہنی عوارض کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ مالی کمی سے متعلق رکاوٹیں زیادہ تر بچوں کو مثبت ذہنی صحت کا تجربہ کرنے سے روکتی ہیں یا انہیں اس قسم کی مدد نہیں ملتی جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے ۔
 اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2021 کی رپورٹ میں حکومتوں، عوامی اور نجی شعبے کے شراکت داروں سے مطالبہ کیا گیا ہے سبھی بچوں، نوعمروں، نوجوانوں اور دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے ذہنی صحت کو فروغ دینے، محتاج افراد کو مدد دینے اور انتہائی کمزور اور پسماندہ افراد کی دیکھ بھال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس میں درج ذیل نکات شامل ہیں ۔ 
* بچوں اور نوعمروں کے لئے صرف ذہنی صحت ہی نہیں بلکہ دیگر امور میں بھی جیسے سماجی نقطہ نظر سے روک تھام، مدد اور حوصلہ افزائی کے لئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔ 
* اچھی اور بہتر ذہنی صحت کو فروغ دینے کے لئے صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک کو روکنے کے لیے منصوبوں اور حکمت عملیوں پر سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے ۔
* صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ تینوں شعبوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے جس میں والدین اور اسکولوں میں ذہنی صحت کی معاونت کو شامل کیا جائے ۔ 
* ذہنی صحت کی پریشانیوں میں مدد کے لئے وسیع سکوت یا خاموشی کو توڑا جائے، اس تناظر میں غلط فہمیوں یا پھر جھوٹے تصور کو دور کرنے کے لئے بیدار پروگرام منعقد کئے جائیں ۔ 
بھارت میں ذہنی صحت کے تناظر میں لوگوں کی غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے اس بارے میں بات کرنے اور تعاون کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ بچوں کو بہتر زندگی دی جا سکے ۔ ڈاکٹر یاسمین علی حق نے کہا کہ ہم ذہنی صحت کو ابھی جس طرح سے دیکھتے ہیں اسے مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ہر وہ بچہ جو تنہائی یا صدمے کا شکار ہے اس کو یقین دلایا جائے کہ ہر بچے میں بہتر کرنے کی صلاحیت ہے اور ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں .

 مزید معلومات کے لیے یونیسیف انڈیا سے رابطہ کریں۔
 الکا گپتا ، یونیسیف انڈیا ، +91 7303259183 ، agupta@unicef.org
 سونیا سرکار یونیسیف انڈیا ، +91 9810170289 ، ssarkar@unicef.org
 سبرینا سدھو یونیسیف نیویارک ، +1917 476 1537 ، ssidhu@unicef.org