مطیع الرحمٰن عزیزکی کتاب’جذبۂ شاہین عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ ‘ایک مطالعہ
معجزاتی شخصیت ،فکرو تحقیق کے عادی ،متجسس مزاج انسان اورنوجوان صحافی جناب مطیع الر حمٰن عزیز عمدہ خبرنگاری کے سبب اردو صحافت میں ایک اچھوتی شناخت کے حامل ہیں ۔عام طور پر ان کی لکھی خبریں دیگر نامہ نگاروں سے منفرد ہوتی ہیں۔وہ خبروں کے پیچھے کئی کئی دن تک دوڑتے ہیں،چھان بین کے جتنے طریقے ،پرکھ کے جتنے پیمانے اور تحقیق کے جتنے معیارات ہیں ،ان سب کو بروئے کار لاکر وہ خبروں کو قاری تک پہنچاتے ہیںاس اعتبار سے ان کی خبریں صحافتی اقدار کے عین مطابق اور قاری کے لئے Authentic ہوتی ہیں۔عہد ِموجود میں ،جب کہ صحافت ایک ’’ کاروبار ‘‘ ہو چکی ہے نامہ نگار ’’ ایجنٹ ‘‘  ایڈیٹر ’’ ڈیلر‘‘ اور مالکان ’’ صنعت کار ‘‘ ہو چکے ہوں ،جہاں میڈیا کی حیثیت ’’ اشتہار ‘‘ کی ہوچکی ہو،بیچ چوراہے پر جس کی بولیاں لگ رہی ہوں ،جسے سرمایہ دار کھلے عام خرید کر ضمیر فروشی کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی بنا چکے ہوں ،جس میڈیاکو  افواہ کی فیکٹری بنادیا گیا ہو ایسے حالات میں حقیقی صحافت کسی دیوانے کے خواب سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے۔لیکن مطیع الرحمٰن عزیز نے زمانے کی روش کے خلاف اپنی راہوں پر چل کر اور اپنے سخت اصولوں پر کار بند رہ کر صحافت کی Crediblity   کو قائم رکھا ہے اس لئے آج کے دورکے اعتبار سے ان کی شخصیت کومعجزاتی بھی کہا جاسکتا ہے۔
جناب مطیع الرحمٰن عزیز کا تعلق ایک علمی خاندان سے ہے ۔ان کے والد مولانا عبدالعزیز جامعہ سلفیہ بنارس کے معروف و معتبر استاد رہے ہیں۔ان کے بڑے بھائی حافظ عبدالرحمٰن عزیز فیضی بھی درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں ،ان کے چھوٹے بھائی حافظ سعید الرحمٰن عزیز سلفی راجستھان میں امام و خطیب ہیں دوسرے تمام چھوٹے بڑے بہن بھائی اردو زبان و ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں غرض یہ کہ ان کا پورا خانوادہ علم و ادب کا گہوارہ ہے۔ایسے گھر میں پیدا ہونا اپنے آپ میں نہ صرف سعادت کی بات ہے بلکہ لائق فخر بھی ہے  ۔مطیع الرحمٰن عزیز کو اپنے والد سے زبان و ادب،تحقیق و تنقید،تلاش و تجسس،تفکر و تدبر،گہری سوچ وچار،جانچنے پرکھنے کی عادت ملی ہے اور اپنے خاندان،والدین اور گھر کے ماحول سے علم و ادب کا ذوق شوق حاصل ہوا۔کیونکہ وہ خود بھی ایک عالم دین ہیں اس لئے ان کی جانچ پڑتال کا محور اسلامی نکتۂ نظر اور اصول و اقدار ہوتے ہیں۔جب قران و سنت پیش نظر ہوں، سچ کو سچ کی طرح دیکھا ،سمجھا ،پرکھا اور بیان کیا جائے تو قلم ،تحریر،الفاظ اور زبان میں تاثیر و تاثر کی قندیلیں خود بخود روشن ہوجاتی ہیں ۔سچ بہت کڑوا ہوتا ہے لیکن بہت سی کڑواہٹوں کو قند بنادینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔مطیع الرحمٰن بھی سچ لکھ کر جھوٹ کے زہر کو زائل اور سچ کے امرت کو جاری کردینے کی قدرتی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔
جناب مطیع الرحمٰن عزیز نے ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی حیات و خدمات سے متعلق ایک کتاب لکھی ہے جس کا ایک لفظ میرے متذکرہ بالا جملوں کی تصدیق کرتا ہے ۔ڈاکٹر نوہیرا شیخ ایک ایسی خاتون ہین جنہوں نے مسلم خواتین کو ایک نئے طریقے سے Empower    کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے اسلامی تعلیمات کے مطابق خود کو حضرت خدیجتہ الکبریٰ کے نقش قدم پر چل کر پہلے اپنا بزنس امپائر کھڑا کیا پھر دوسری خواتین کو ساتھ لیا اور ساری دنیا میں ایک نئے فنا شیل واکانومی سسٹم کی بنیاد ڈال دی ۔سود اور استحصال سے مبرا ان کے طرقۂ تجارت کو ساری دنیا میں پسند کیا گیا، ان کی ذہانت ،متانت ،علمی ،تعلیمی اور تجارتی خدمات کی خوب پذیرائی ہوئی لیکن جب انہوں نے خواتین کی ایک سیاسی جماعت کی تشکیل کا اعلان کیا  اور ملک بھر کی خواتین کو اپنے ساتھ جوڑنے کا منصوبہ بنایا تو اہل سیاست اور بالخصوص سیاسی تاجروں کے پائوں تلے کی زمین کھسک گئی۔ڈاکٹر نوہیر ا شیخ کے خلاف سازشوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور بالآخر اس عالمہ کو جیل کی کالی دیواروں کے پیچھے دھکیل دیا گیا جس نے لاتعدا افراد کو فکر معاش سے آزاد کرایا تھا۔
سوشل میڈیا اور ’’ کاروباری ‘‘ صحافت نے ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی اصل خدمات اور حقیقی مقاصد پر جھوٹ کی ایسی ملمع سازی کی کہ بڑے بڑے ذہین لوگ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کوایک ویلن کے طور پر دیکھنے لگے۔راقم الحروف بھی جوخود کوایک صحافی کہتا اور کہلاتا ہے ،غلط خبروں کا شکار ہوگیا۔جھوٹ کی ایسی آندھی چلی کہ سچ کے سارے چراغ بجھنے کی وجہ سے راقم کو بھی ویسا ہی اندھیرا نظر آیا جیسا بیان کیا جارہا تھا۔گو کہ ان معاملات میں راقم کا رویہ بہت محتاط رہتا ہے اس لئے کبھی اپنے قلم سے ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش نہیں کی لیکن ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی دل و دماغ میں وہی تصویر بسی رہی جو کاروباری میڈیا  اور مفاد پرست اہل سیاست اور بقول خود ملّی رہنمائوں نے دکھائی تھی۔
جناب مطیع الرحمٰن کی کتاب ’’ جذبۂ شاہین ‘‘کے مطالعے نے سب سے پہلے تو راقم کی اس غلط تصویر کو ذہن و دل سے ہٹایا جو کچے رنگوں سے کاروباری میڈیا نے بنائی تھی۔جیسے  جیسے کتاب کا مطالعہ آگے بڑھا ’’ جذبۂ شاہین ‘‘ کی مالک کے صادق عزائم نے راقم السطور کوڈاکٹر نوہیرا شیخ کا عقیدت مند بنادیا۔مذکورہ کتاب کے مطالعے سے ایک فائد ہ یہ بھی ہوا کہ اس طرح کی بہت سی کمپنیوں کے بارے میں تلاش و تحقیق کا جذبہ بیدارہو ا جو اچانک نیک نام سے بدنام کردی گئیںیا کرادی گئیں ۔اسی طرح کی ایک کمپنی بنگلور میں بھی تھی جس نے ہزاروں کروڑ کا بزنس کیا۔بہت معمولی نرخ پر دوائیں فراہم کرائیں ،کم خرچ میں معیاری تعلیم کے انتظامات کئے،بلاسود تجارت میں نئی راہیں استوار کیں لیکن اچانک اس پر زوال آیا اور دیکھتے دیکھتے کمپنی غائب ہوگئی۔بعد میں کمپنی کے ایم ڈی کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر نظر آیا جس میں انہوں نے بنگلور کے ایک مسلم ممبر اسمبلی اور سابق وزیر پر چارسو کروڑ روپیہ کے مطالبے کا الزام لگایا۔میرا خیال ہے کہ مطیع الرحمٰن جیسے نوجوانوں کو اس طرح کے تمام اداروں کی تحقیق کرکے ان کی حقیقت کو سامنے لانا چاہیے۔
جناب مطیع الرحمٰن عزیز نے سات سو چھیاسٹھ (766 ) صفحات کی ضخیم کتاب میں ایک ایک صفحے پر ’’ جذبۂ شاہین ‘‘ سے مملو ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے عزم و ہمت ،ایمانداری ،سچائی، انسانی خدمت،کچلے ہوئے لوگوں کو باوقار ندگی جینے کے لئے ترغیب و تحریک دینے کی خواہش،تعلیم کے زیورسے ہر امیر غریب کے بچوں کو آراستہ کرنے کی تمنا،برسوں سے محرومی کی زندگی گذارنے والوں کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے  عزم ،ہر غریب کے لئے روزی روٹی کے انتظام کرنے کی فکر اور اسلامی شعائر کے لئے ذوق و شوق پیدا کرنے کوششوں کو مکمل جانچ پرکھ کے بعد تحریر کیا ہے۔اس کتاب میں جہاں انہوں نے بڑی احتیاط  اور غیر جانبداری کے ساتھ ڈاکٹر صاحبہ کی حیات کے ایک ایک لمحے کو قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے وہیں انہوں نے ان کی ان کمزوریوں کو لکھنے میں بھی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے جو ہرانسان کو انسان بنانے اور فرشتہ ہونے سے روکنے کے لئے ضروری توہوتی ہیںلیکن  ان کو بیان کرنے کے لئے بہت ہمت و جرأت درکار ہوتی ہے ۔اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب ایک ایسے شخص کی تحریر ہے جو تعلقات بنانے یا نبھانے سے زیادہ حق گوئی اور رضائے الٰہی کواہمیت و ترجیح دیتا ہے ۔
اعلیٰ درجے کی کمپوزنگ،عالمی معیار کی طباعت اور دیدہ زیب سرِورق کے ساتھ اس کتاب کی ترتیب کچھ اس طرح ہے۔کتاب کے ٹائٹل پر مسکراتی ہوئی عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی پروقار تصویر ہے جو ان کے داخلی و خارجی عزائم و کیفیات کی عکاسی کررہی ہے ۔کتاب کا ٹائٹل بہت سادہ اور جازبِ نظر ہے ۔کتاب کا اندورونی سرورق بلیک اینڈ وائٹ لیکن پرکشش ہے جس پر بہت آرٹسٹک طریقے سے ’’ جذبۂ شاہین عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ ‘‘ جلی حروف میں لکھا گیاہے اس کے نیچے مصنف کا نام ،ای میل ایڈریس اور موبائل نمبر درج ہے صفحہ 2 پر کتاب کی تفصیل 3 پر کتاب میں قائم کئے گئے ابواب کا ذکر ہے جن میں تاثرات کا الگ باب ہے اس کے بعد حرف اول،شخصیت،تعلیمی خدمات،تجارتی خدمات ،سیاسی خدمات، سازش، گرفتاری فلاحی ، رفاہی ،سماجی،ملی ،ملکی خدمات ،اعزازات اور آخر میں آپا کے سپاہی ۔یعنی اس کتاب میں کل گیارہ ابواب قائم کئے گئے ہیں ۔صفحہ 4 پر پہلے باب یعنی تاثرات درج ہیں جس میں سالک بستوی ایم اے کی منظوم تہنیت ہے،عاقل صاحب کا کتاب پر تبصرہ اور حافظ اشفاق محمدی صاحب کی تقریظ بعنوان ’’ جذبۂ شاہین ۔گراں قدر کارنامہ اور کوشش‘‘ ۔دوسرے باب میں مصنف نے لفظ چند  اور کلمات تشکر و امتنان کے تحت اپنا اور اپنے آباو اجداد کا مختصر تعارف پیش کیا ہے۔پرانے دور میں یہ طریقہ رائج تھا کہ کتاب کا مولف یا مصنف پہلے اپنے بارے میں مکمل تعارف کراتا تھا تاکہ اس کی علمی لیاقت اور خاندانی پس منظر کے بارے میں اچھی طرح جانکاری حاصل ہوجائے اور کتاب کی اہمیت و افادیت کو سمجھا جاسکے۔ اس کے بعد بہت سے نامور اور معتبر لوگوں سے کتاب کی تقریظ یا مقدمے لکھوائے جاتے تھے تاکہ کتاب کی Authenticity تمام شکوک و شبہات سے پاک و صاف سمجھی جائے ۔بالخصوص سیرت نگاروں اور سوانح نویسوں کا پہلے شجرہ دیکھا اور پڑھا جاتا تھا اس کے بعد کتاب کی اعتباریت پر رائے قائم کی جاتی تھی لیکن آجکل یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے کیونکہ ’’ جذبۂ شاہین ‘‘ ایک سوانحی کتاب بھی ہے اس لیے جناب مطیع الرحمٰن عزیز نے اسی پرانی روش کو اپنا یا ہے۔کتاب کا تیسرا باب صفحہ 46 سے صفحہ 168 تک ہے جس میں ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی زندگی کا مکمل احاطہ کرنے کی کوشش کے تحت موصوفہ کا مختصر تعارف ،تعلیم و تربیت ،اخلاق و کردار،عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی کہانی خود ان کی زبانی،امانت داری،تعاون و غمگساری،حوصلہ،عزم مصمم، دینداری، اخلاق، سچائی، جستجوو طلب،جہد مسلسل،تفکر و تدبر،عفوو درگذر،توکل،خشیت الٰہی ،زندگی کا مقصد،یقین کامل،وغیرہ کل 33 موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔اس با ب میں انہوں ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے خاندانی پس منظر والدین کا بیٹیوں کے بارے میں منفی نظریہ اور ڈاکٹر صاحبہ کی جرأتمندی پر تفصیلی تبصرہ کیا گیاہے ۔ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی پہلی شادی 12 برس کی عمر میں کردی گئی تھی لیکن اس کمسنی میں ہی ڈاکٹر صاحبہ نے والدین کے خلاف سخت احتجاج کرکے اس ان چاہے نکاح کو فسخ کرانے پر مجبور کیا تھا اس کے بعد انہوں نے تعلیم کی اعلیٰ اسناد حاصل کرکے پہلے تعلیم کے اجالے کو عام کرنے کے لئے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے عالی شان و فقید المثال ادارہ قائم کیا۔یہ ادارہ شاید اپنی نوعیت کی منفرد درس گاہ ہے جہاں عالمی معیار کی دنیوی تعلیم دینی ماحول میں دی جاتی ہے ۔
تعلیمی خدمات کے باب میں جامعہ نسواں سلفیہ ،جامعہ نسواں کے تعلق سے سازش،جامعہ نسواں کے قیام کا مقصد،جامعہ نسواں کے انتظامات و انصرام اور درس و تدریس،طالبات کی دلجوئی وغیرہ کے کل 10 عنوانات کے تحت130 صفحات پر مضامین تحریر کئے گئے ہیں ۔اس باب میں جامعہ کا تفصیلی تعارف،وہاں تربیت حاصل کرنے والے طلبا کی کے حالات،جامعہ میں آنے والے برگزیدہ افراد کے تاثرات اور حاسدوں کی سازشوں پر مفصل گفتگو کی گئی ہے ۔تجارتی خدمات کے باب میں صفحہ 212 سے 240 تک کل بارہ مضامین تحریر کئے گئے ہیں جن میں ہیرا گروپ آف کمپنیز کا تفصیلی تعارف،کمپنی کی تجارت کا طریقہ،ذیلی کمپنیوں کے قیام ،تجارت کا فروغ، ہیراگروپ میں عوامی سرمایہ کاری،سود سے مبرا تجارت،عوام کے سرمائے کی حفاظت و ضمانت ،کمپنی کا ارتقا اور ساری دنیا میں پھیلائو پر بھرپور مضامین لکھے گئے ہیں ۔اگلا باب سیاسی خدمات کا ہے جس میں 13 عنوانات ہیں عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی قائم کردہ ملک کی واحد خواتین کی سیاسی جماعت ’’ آل انڈیا مہیلا امپاورمنٹ پارٹی ‘‘ کی تشکیل اور اس کے تیزی سے عوامی مقبولت حاصل کرلینے کی داستان بیان کی گئی  ۔کتاب کے صفحہ نمبر 309 سے 530 تک 41   عنوانات کے تحت ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے خلاف سازشوں پر سیر حاصل بحث ی گئی ہے۔اس باب میں ان تمام چہروں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ہیراگروپ آف کمپنیز کو یاتو بلیک میل کرنا چاہتے تھے یا اسے برباد کرنے کی کوششوں میں غلطاں تھے۔اس باب میں ان چہروں سے بھی نقاب اٹھائی گئی ہے جو آئے دن ملت کے غم میں ماتم کرتے نہیں تھکتے اور جن کو ملت کے زوال کی ہر لمحہ چنتا رہتی ہے لیکن وہی لوگ ملت کی ایک ایسی خاتون کے خلاف سازش کرنے لگتے ہیں جو پہلے خود امپاور ہوتی ہے اور پھر پوری انسانیت بالخصوص خواتین اسلام کو حضرت خدیجتہ الکبریٰ کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنے شب و روز کا ایک ایک پل خرچ کرڈالتی ہے۔کتاب کا یہ باب کافی طویل اور تفصیلی ہے جسے پڑھ کر انسانی ذہن گھنٹوں حیرانی کے دریا میں ڈبکیاں لگاتا ہے۔جذبۂ شاہین کا اٹھواں باب ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی گرفتاری سے متعلق ہے ۔اس باب میں ان لوگوں کے کردار پر گفتگو کی گئی ہے جو بظاہر ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے ہمدرد اور غمگسار تھے لیکن اندر سے پوری طرح منافق تھے مصنف نے ان آستین کے سانپوں کا بڑی بے باکی اور جرأت مندی سے نہ صرف  ذکر کیا ہے  بلکہ ان کی منافقانہ کار گذاریوں کے دلائل و ثبوت بھی پیش کئے ہیں۔نویں باب میں فلاحی،رفاہی،سماجی ،ملّی و ملکی خدمات سے متعلق 16 عنوانات کے تحت ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی بے لوث خدمات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔اس باب میں روہنگیا مسلمانوں پر کئے گئے مظالم کے خلاف ڈاکٹر نوہیرا شیخ کا ردعمل اور مظلومین کی امداد سے متعلق کوششوں کا ذکر ہے ساتھ ساتھ نوٹ بندی کے دنوں میں ہندوستانی عوام پر اچانک آنے والی مصیبتوں کے دنوں میں ہیراگروپ آف کمپنیز کی انسانی خدمات پر مضامین ہیں ۔کتاب کے دسویں باب میں ڈاکٹر نوہیرا شیخ کو ملک اور بیرون ملک سے ملنے والے اعزازات کے بارے میں مختصر مضمون ہے ’’ جذبۂ شاہین‘‘ کا آخری باب ’’ آپا کے سپاہی ‘‘ پر مشتمل ہے۔اس باب میں بتایا گیا ہے کہ جس وقت ملک کے چھوٹے موٹے نیتا سے لے کر ملّی رہبر اور مسلمانوں کے اعلیٰ درجے کے لیڈر تک ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے خلاف منفی پرو پیگنڈہ،عوام کو گمراہ اور دشنام طرازی کا ماحول گرم کررہے تھے ،اسی دور میں کچھ ایسے جیالے بھی تھے جو جھوٹ،مکرو فریب کی سیاہ چادر کو سچ کے جگنو سے چاک کرنے کی جدوجہد کررہے تھے۔ان سپاہیوں میں سماج کے ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں جو آج بھی ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے خلاف ہونے والی سازش کو ناکام کرنے اور ڈاکٹر صاحبہ کو پھر سے میدان عمل میں لانے کے لئے کوشاں ہیں۔
مذکورہ بالا سطور میں کتاب کا اجمالی تعارف پیش کیا گیا ہے ۔تاکہ ’’جذبۂ شاہین ‘‘کے مبادیات ،مقصد کتاب ،اہمیت ،افادیت ضرورت اور مصنف کی محنت کوسمجھا جاسکے۔یہ کتاب ہر اس شخص کو پڑھنا چاہیے جو ملت کے دلالوں کے بارے میں مدلل جانکاری چاہتے اورخود کو بیدار کرنے کے خواہش مند ہیں۔ان لوگوں کو بھی جویہ کتاب پڑھنی چاہئے جو ان لوگوں کی شناخت کرنا چاہتے ہیں جو اسلامی اور شرعی لباس پہن کر غیر اسلامی اور غیر شرعی فعل انجام دیتے ہیں ۔جن کے چہروں پر ’ملّی خدمات‘ کا بورڈ آویزاں ہے لیکن دل میں ملت کے ہر سود مند کام کو برباد کرنے کا جذبہ ہے۔یہ کتاب ان لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے جوایسے لوگوں کی پہچان کرنا چاہتے ہیں جن کی گفتگومیں جگنوئوں جیسی چمک ہوتی ہے لیکن ان کے ذہنوں میں اندھیرا بانٹنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ان لوگوں کو بھی پڑھنی چاہیے جو ایک سازش کے تحت سارے مسلمانوں کو جاہل ،انپڑھ اور غیر مہذب سمجھ بیٹھے ہیں اور مسلمانوں کی ترقی سے پوری طرح مایوس ہوچکے ہیںلیکن ملک و ملت کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے والے افراد تک ان کی نظروں کو جانے سے روک دیا جاتا ہے یا ان کے دلوں میں غلط فہمی پیدا کردی جاتی ہے۔کتاب کی قیمت مبلغ500 روپئے ہے اور یہ کتاب اے آر گرافکس ۔آر۔28 ریتا بلاک ،شکر پور ،دہلی 110092 سے منگائی جاسکتی ہے ۔
’’ جذبۂ شاہین ‘‘ کی ترتیب و تزئین میں جناب زاہد خان کی خلاقانہ ذہانت اور حسن کارکردگی نمایاں نظر آرہی ہے طباعت بھی لاجواب ہے لیکن غور سے مطالعہ کرتے قت کتاب کے ہر صفحے پر کچھ ایسی غلطیاں مل جاتی ہیں جن کو پڑھتے ہوئے اہل زبان کا ذائقہ بدل جاتا ہے۔ کتاب کے آخری باب میں مصنف سے تحمل کا دامن چھوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔بلا شبہ سازش کرنے والے برے لوگوں کو برے لفظوں میں ہی پکارا جاناچاہیے لیکن ایک غیر جانبدارمصنف کوایسا اسلوب بیان اپنانا چاہیے جس سے کہ غیر جانبداری کے تقاضوں پر رتی برابر آنچ نہ آئے ۔میرا خیال ہے کہ اگر پروف ریڈنگ پر تھوڑی سی توجہ دی جاتی تو شاید ’’ جذبۂ شاہین ‘‘مزید خوبصورت ہوسکتی تھی۔امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔