نئی دہلی،16دسمبر(سیاسی منظرنیوز)جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر نے کہا کہ اتوار کی رات کو پولیس نے کیمپس میں گھس کر طلبہ کے ساتھ مارپیٹ اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایا ،وہ اس سلسلے میں پولیس کے خلاف معاملہ درج کرائیں گی۔
پروفیسر اختر نے یہاں نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا کہ وہ انسانی حقوق کے وزیر سے اس واقعہ کی اعلی سطحی جانچ کا مطالبہ کریں گی۔انہوں نے کہاکہ جامعہ انتظامیہ سے بغیر اجازت لئے پولیس زبردستی کیمپس میں گھسی ہے جسے ہم برداشت نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ سوشل میڈیا میں ایک افواہ پھیلائی جارہی ہے ایک بچے کی موت ہوگئی ہے جو سراسر بے بنیاد ہے۔انہوں نے کہا کہ اتوار کے واقعہ میں تقریباً 200افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد میں جامعہ کے طلبہ ہیں۔جامعہ کے جو طلبہ زخمی ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر بچے لائبریری میں پڑھائی کررہے تھے۔پروفیسر اختر نے میڈیا سے اپیل کی کہ وہ آس پاس کے واقعات کو جامعہ سے جوڑ کر نہ دیکھے اور نہ چلائیں ۔اس سے یونیورسٹی کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔
وائس چانسلر نے کہا دھرنا ،مظاہرے کا اعلان اتوار کو طلبہ نے نہیں کیاتھا بلکہ آس پاس کے رہائشی علاقوں کے لوگوں نے کیاتھا۔وائس چانسلر کے مطابق یہ لوگ جب ریلی نکال رہے تھے تو جولینا میں پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپ ہوئی تب پولیس نے ان کا پیچھا کیا اور پیچھا کرتے ہوئے یونیورسٹی اور لائبریری میں گھس گئی اور مارپیٹ اور توڑ پھوڑ شروع کردی۔
جامعہ کے مولانا ابوالکلام آزاد گیٹ پر پولیس کی کارروائی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف لوگ مظاہرہ کررہے ہیں۔وہیں کچھ طلبہ ہاسٹل خالی کرکے اپنے اپنے گھروں کےلئے نکل رہے ہیں۔گھرجانے والی ایک طالبہ نے بتایا کہ اتوار کی رات پولیس نے ہاسٹل میں جس طرح بربریت سےکام لیا ہے اس سے ہم لوگ دہشت میں ہیں اور ہمارے گھر والے جلد از جلد واپس بلا رہے ہیں۔ایک دیگر طالبہ نے کہاکہ اتوار کی رات کا واقعہ بے حد خوفناک تھا۔پولیس طلبہ کے ساتھ مجرموں کی طرح پیش آئی۔پولیس نے طلبہ کو گندی گندی گالیاں دیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی صورت حال اب تک سنگین ہے۔ طلباء کا صبح 6بجے سے ہی دوبارا پیس پروٹیسٹ شروع ہوچکا ہے، جس میں علاقائی لوگ بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ اور پولیس بھی تعینات ہے۔ جس کی وجہ سے اوکھلا کے حالات بہت زیادہ خراب نظر آرہے ہیں، عوام میں خوف کا ماحول دیکھا جارہا ہے، جب کہ زخمی طلباء اسپتالوں میں زیر علاج تھے، لیکن وہ بھی آہستہ آہستہ احتجاجی مظاہرے میں واپس آرہے ہیں۔ اسی درمیان ایک طالب علم نے پولیس پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ رات کے اندھروں میں ہماری بے رحمی سے پٹائی کی گئی ہے ، اب ہمت ہے تو دن کے روشنی میں مار کردکھائیں۔ یہ احتجاج جامعہ ملیہ کے گیٹ نمبر 7 اور 8 کے پاس ہورہا ہے۔ جب کہ یونیورسٹی کے سبھی گیٹ بند کردیے گئے ہیں، طلباء کو جامعہ میں داخل نہیں ہونے دیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ اتوار کی رات جامعہ میں قیامت کا منظر تھا، ذرائع کے مطابق دو تین طلباء کی موت بھی ہوچکی ہے، جب کہ درجنوں زخمی بتائے جارہے ہیں۔ گزشتہ رات جامعہ ملیہ میں پولس کی بربریت کے خلاف جامعہ، ڈی یو اور جے این یو کے طلباء اور ٹیچرس نے دہلی پولس ہیڈکواٹر کے باہر مظاہرہ کیا، جس کے بعد یونیورسٹی کے گرفتار تقریباً 50 طلباء کو رہا کر دیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ اتوار کی شب جامعہ یونیورسٹی میں کافی ہنگامہ ہوا۔ طلبا کا الزام ہے کہ پولس نہ صرف کیمپس میں داخل ہوئی اور لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں پر بھی لاٹھی چارج کرنے لگی، بلکہ لائبریری میں پڑھ رہے طلبا و طالبات کے اوپر بھی بربریت کی۔ کئی ویڈیو سامنے آئے ہیں جس میں پولس لاٹھی چارج کرتی ہوئی اور آنسو گیس کے گولے داغتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور توڑ پھوڑ بھی کیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پراکٹر نے واضح لفظوں میں کہا کہ پولس بغیر اجازت کیمپس میں داخل ہوئی اور اسٹوڈنٹس کو نشانہ بنایا۔ جامعہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے پولس کی اس کارروائی پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے اور انھوں نے طلباء کے ساتھ کھڑنے ہونے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے