ممبئی، 10 دسمبر (یو این آئی) ہندوستانی فلمی صنعت کے قدآور اداکار دلیپ کمار، جو شہنشاہ جذبات کے لقب سے مشہور ہیں، کی شہرت اور مقبولت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ بگ بی کہے جانے والے اداکارامیتابھ بچن کا کہنا ہے ہندوستانی فلموں کی تاریخ دوحصوں میں لکھی جائے گی ،ایک دلیپ کمار سے پہلے اور دوسرا حصہ دلیپ کمار کے بعدکی تاریخ پر مبنی ہوگاکیونکہ فلمی صنعت پر ان کے نقوش پائے جاتے ہیں۔
دلیپ کمار11 دسمبر 1922کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پھلوں کے تاجر غلام سرور خان کے ہاں پیدا ہوئے۔اصل نام یوسف خان ہے۔ چونکہ ان کے والد کے پھلوں کے باغات ناسک (مہاراشٹر) کے قریب تھے اس لیے ان کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ناسک کے قریب دیو لالی کے برنس اسکول سے ہوا۔ 1932 میں ان کے خاندان نے ہمیشہ کے لئے ممبئی کو اپنا ٹھکانہ بنالیا جہاں انجمن اسلام اسکول سے میٹرک اور خالصہ کالج سے بی اے کرنے کے بعد انہیں پونا کے ملٹری کینٹین میں منیجر کی نوکری مل گئی۔
سال 1943 میں دلیپ کمار کی ملاقات بمبئی ٹاکیز کے مالکان دیویکا رانی اور ان کے شوہر ہمانشو رانی سے ہوئی جنھوں نے انہیں اپنی فلم کے مرکزی کردار کے لیے کاسٹ کرلیا یہ فلم 1944 میں جوار بھاٹا کے نام سے شروع ہوئی جو ان کا بالی وڈ میں ڈیبیو ثابت ہوا۔ اسی زمانے میں ہندی زبان کے مصنف بھگوتی چرن ورما نے یوسف خان کو دلیپ کمار کا نام دیا۔
سال 1947 کے ہنگامہ خیز سال میں جہاں ان کی فلم “ملن” نے ناکامی کا منہ دیکھا وہاں شوکت حسین رضوی کی ہدایت میں ان کی چوتھی فلم “جگنو” نے دھماکہ خیز انٹری کی ۔اس فلم کی ہیروئن شوکت رضوی کی شریک حیات اور بعد میں ملکہ ترنم کا خطاب پانے والی نورجہاں ہیں۔فلم کی کامیابی سمیٹتے سمیٹتے شوکت رضوی اور نورجہاں پاکستان ہجرت کرگئے تاہم وہ جاتے جاتے ہندی سینما کو وہ تحفہ دے گئے جس نے جگنو جیسی ہی روشنی پائی۔
سال 1952 میں ہدایت کار محبوب خان کی فلم “آن” میں دلیپ کمار ایک زبردست ٹیکنی کلر کردار کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے لیکن اس کے باوجود بعض نقادوں کا ماننا تھا کہ وہ دوسری قسم کے کرداروں کو ادا نہیں کرپائیں گے ۔1954 سے لے کر 1958 تک “جوگن”، “آرزو”، “بابل” “ترانہ”، “داغ”، “دیدار”، “دیوداس” “مدھومتی” اور “یہودی” جیسی ناقابل فراموش فلموں میں انہوں نے المیہ اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ انہیں “ٹریجڈی کنگ” کے نام سے پکارا جانے لگا۔موخر الذکر تین فلموں کے ہدایت کار بمل رائے ہیں اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ بمل رائے کی تخلیقات کو اگر بلراج ساہنی کے بعد کسی نے بھرپور انداز میں پیش کیا ہے تو وہ دلیپ کمار ہی ہیں۔
سال 1960 میں فلم “کوہ نور''کے ایک گیت “مدھ بن میں رادھیکا ناچے رے” کو فلمانے سے قبل انہوں نے اداکاری میں حقیقت کا عنصر پیدا کرنے کے لئے کڑی محنت کرکے ستار بجانا بھی سیکھا اور اس کوشش میں ان کی انگلیاں تک زخمی ہوگئیں۔قبل ازیں نیا دور کے لئے بھی اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے انہوں نے باقاعدہ تانگہ چلانے کی تربیت حاصل کی۔
سال 1960 میں تاریخی فلم 'مغلِ اعظم'میں شہزادہ سلیم کے کردار نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور اپنی لازوال فنکاری سے مداحوں کے دلوں میں گھرکر لیا۔
سال 1966 میں رشید کاردار کی ہدایت میں وحیدہ رحمان کے ساتھ فلم “دل دیا درد لیا” آئی جو ایملی برونٹس کے ناول Wuthering Heights سے ماخوذہے۔ فلم کامیاب رہی لیکن یہ فلم ان کی سابقہ فلموں کے ہم پلہ ہرگز نہیں ہے ۔تاہم 1967 میں جلوہ گر ہوئی فلم “رام اور شیام” کو ان کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔اس فلم میں ان کے مقابل وحیدہ رحمان اور صدی کی خوبصورت ترین اداکارہ کا اعزاز پانے والی ممتاز ہیں۔رام اور شیام کو نہ صرف وسیع پیمانے پر پسند کیا گیا بلکہ متعدد دفعہ اس کی نقل بھی کی گئی جیسے ہیمامالنی کی “سیتا اور گیتا”، سری دیوی کی “چالباز” اور انیل کپور کی “کشن کنہیا”۔
رام اور شیام کی ریلیز سے قبل 1966 میں انہوں نے پڑوسن فلم سے شہرت پانے والی حسین ساحرہ “سائرہ بانو” کے ساتھ شادی کرلی۔
اسی (80) کی دہائی میں یوں تو ان کی بہت سی فلمیں آئیں مگر ان کی اہم ترین فلمیں رمیش سپی کی ہدایت میں “شکتی” جس میں ان کے مقابل امیتابھ بچن تھے، دوسری1984 میں یش چوپڑہ کی ہدایت والی فلم “مشعل” جس کے ایک سین برسات کی رات، سنسان سڑک پر، اپنی مرتی بیوی کی زندگی بچانے کے لئے دلیپ کمار مدد کی فریاد کرتے ہیں۔اس سین میں ان کا انداز، ڈائیلاگ ڈلیوری، جسم کی حرکت الغرض ہر چیز شاندار ہے جبکہ تیسری فلم1986 میں وطن پرستی پر مبنی “کرما” ہے جس کے ہدایت کار سبھاش گئی ہیں، ان کا فن سر چڑھ کر بولتا ہے۔
نوے کی دہائی میں “سوداگر” دیکھنے کے قابل ہے جس میں ان کے مقابل ہندی سینما کے دوسرے کمار “راج کمار” تھے۔سال 1998 میں ” قلعہ” ان کی آخری فلم ثابت ہوئی ۔اپنے چوّن سالہ کیریئر میں انہوں نے سینما پر ایک بادشاہ کی طرح راج کیا، سینکڑوں ایوارڈ حاصل کئے۔
دلیپ کمار سب سے زیادہ تعداد میں ایوارڈز جیتنے والے انڈین اداکار کا گینز ورلڈ ریکارڈ کا اعزاز بھی اپنے نام کرچکے ہیں۔ انہیں ہندی سنیما کے سب سے بڑے اعزاز 'دادا صاحب پھالکے' سے نوازا جا چکا ہے۔ ساتھ ہی وہ پدم بھوشن ایوارڈبھی حاصل کر چکے ہیں۔علاوہ ازیں وہ پاکستان کے سب سے بڑے سویلین اعزاز نشانِ پاکستان سمیت لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ زاور دیگر بیشمار فلمی ایوارڈز سے بھی سرفراز ہو چکے ہیں۔
بالی وڈ فلم انڈسٹری میں لیجنڈ کی حیثیت رکھنے والے دلیپ کمار آجکل علیل ہیں۔ کئی بالی وڈ ستاروں کے ساتھ ان کے مداحوں نے ان کی جلد صحتیابی کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔