بابری مسجد تنازعہ: مختار عباس نقوی کے رہائش گاہ پر آر ایس ایس رہنما اور مسلم رہنماوں کی میٹنگ


نئی دہلی'5نومبر (ایس ایم نیوز) مذہبی' سماجی اورتعلیمی شعبے سے تعلق رکھنے والی اہم مسلم شخصیات کی آج یہاں ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں بابری مسجد تنازعہ کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے آنے والے فیصلے کا احترام کرنے اور ملک میں سماجی ہم آہنگی بھائی چارہ اور اتحاد کو ہر قیمت پر برقرار کھنے پر زور دیا گیا۔
اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی کی رہائش گاہ پر یہ میٹنگ تقریباً ڈھائی گھنٹے چلی۔ میٹنگ کے بعد مسٹر نقوی نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ شرکاء نے عوام کو ایسے افرا د سے ہوشیار رہنے کی اپیل کی جو اپنے ذاتی مفادات کے لئے ملک کے اتحاد اور خیر سگالی کو نقصان پہنچانے کی سازش میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میٹنگ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ کثرت میں وحد ت ہی ہمارا کلچر ہے اور ہماری تہذیب ہے۔اس کی حفاظت کرنا سماج کے تمام طبقات کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
مسٹر نقوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کیا جانا چاہئے۔ کسی بھی صورت میں مکالمہ کیا جانا چاہئے۔ مقدمے میں ایک فریق کی ہار اور دوسرے کی جیت ہوتی ہے۔ لیکن ”جیت کا جنونی جشن اور شکست کا ہاہاکار نہیں ہونا چاہئے۔“ انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر حال میں ملک کے اتحاد اور بھائی چارہ کے ڈور کو مضبوط کرنا چاہئے۔



میٹنگ میں شامل بی جے پی رہنما سید شہنواز حسین نے اس میٹنگ کو تاریخی بتاتے ہوئے کہا کہ میٹنگ میں تمام فریقین نے کہا کہ عدالت کے فیصلے کا احترام کیا جانا چاہئے۔ ملک کے اتحاد کو مضبوط کیا جانا چاہئے اور کسی بھی حالت میں غلط فہمی نہیں پیدا کی جانی چاہئے۔
میٹنگ میں آر ایس ایس کے سہ سرکاریہ واہ کرشن گوپال' کل ہند سہ سمپرک پرمکھ رام لال بھی موجود تھے۔ تاہم میٹنگ کے بعدا نہوں نے نامہ نگاروں کے سوالوں کا جواب دینے سے منع کردیا میٹنگ میں پچاس سے زائد اہم مسلم شخصیات موجود تھیں۔ ان میں جمعیت علماء ہند کے مولانا محمود مدنی اور نیاز فاروقی،شیعہ رہنما کلب جواد' صحافی قمر آغا، سابق ممبر پارلیمنٹ شاہد صدیقی' جے این یو کے پروفیسر عبدالنافع' مسلم پرسنل لا بورڈ کے کمال فاروقی' علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور' حج کمیٹی کے سابق چیئرمین قیصر شمیم' قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین غیور الحسن رضوی' قاری محمد میاں مظہری' جسٹس ذکی اللہ خان' ذاکر حسین کالج کے پرنسپل ڈاکٹر مسرور احمد بیگ'پارلیمنٹ جامع مسجد کے امام محب اللہ' انجمن معینیہ چشتیہ کے نائب صدر سید توفیق چشتی' درگاہ حضرت نظام الدین کے سجادہ نشین سید حماد نظامی،خواجہ افتخار احمد، ماہر اسلامیات پروفیسر اخترالواسع، پروفیسر ظفر جنگ' جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر قاضی عبید الرحمان ہاشمی'فلم ساز مظفر علی' امام ایسوسی ایشن کے صدر ساجد رشیدی'دہلی یونیورسٹی کے ڈاکٹر حسنین اختر، سپریم کورٹ کے وکیل سید مجیب الدین خان' خانقاہ چشتیہ نوادہ بہار کے سجادہ نشین سید عین الدین چشتی' جھارکھنڈ پبلک سروس کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر محمد پرویز'شیعہ جامع مسجد کشمیری گیٹ کے امام مولانا محسن تقوی وغیرہ شامل تھے۔
میٹنگ کے بعد فلم ساز مظفر علی نے یو این آئی سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایک دوسرے پر باہمی انحصار میں ہی ہماری بقا ہے اور آج اس کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو اقتصادی طورپر ایک دوسرے پر منحصر ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ امن و محبت برقرا ررہے۔
مولانا کلب جواد کا کہنا تھا کہ جو بھی فیصلہ آئے اسے سب کو تسلیم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک سب سے اوپر ہے اور ملک میں امن وسکون اس وقت سب سے اہم ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح کی ایک اور میٹنگ ہندووں کی بھی ہونی چاہئے جس میں وی ایچ پی وغیرہ کو شامل کیا جانا چاہئے۔


صحافی ظفر آغاکا کہنا تھا کہ ملک میں امن و شانتی بنی رہنی چاہئے اور عدالت کا فیصلہ سب کو ماننا چاہئے۔ عدالت کے فیصلے کو کسی ایک فریق کی جیت اور دوسرے فریق کی ہارکے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے۔ان کا کہناتھا کہ میٹنگ میں سب کا وشواش کی بات کہی گئی لہذا لوگوں کا وشواش برقرار رہنا چاہئے۔ مسٹر آغا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آر ایس ایس کے نمائندوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ہندووں کی طرف سے کسی طرح کی اشتعال انگیزی نہیں ہوگی۔ تاہم یہ بھی کہا کہ شرپسند عناصر کی باتوں اور حرکتوں کو نظر انداز کیا جائے یا اس سلسلے میں مسٹر نقوی یا آر ایس ایس کو فوراً مطلع کیا جائے۔
اے ایم یو کے وائس چانسلر طارق منصور نے کہا کہ انہوں نے تمام طبقات اور بالخصوص علیگ برادری سے ملک میں امن و شانتی برقرار رکھنے میں اپنا رول ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔
درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے سجادہ نشین فرید نظامی کا کہنا تھا کہ درگاہوں سے تو ہمیشہ ہی امن و شانتی کی باتیں ہوئی ہیں اور صوفیائے کرام نے ہمیشہ پیار و محبت او ربھائی چارہ کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ ہم اپنے عقیدت مندوں سے اپیل کریں گے کہ اس معاملے کو مذہبی طور پر نہیں لینا چاہئے۔