ایران اور سعودی عرب تنازع: ایران مشرقِ وسطیٰ میں سٹریٹیجک برتری کیسے حاصل کر رہا ہے؟

 



بین الاقوامی ادارہ برائے سٹریٹیجک سٹڈیز ( آئی آئی ایس ایس) کے مطابق ایران مشرقِ وسطیٰ میں اثر رسوخ بڑھانے کی سٹریٹیجک کوششوں میں اپنے حریف سعودی عرب پر برتری حاصل کر رہا ہے۔


ایران 08نومبر(ایجنسیاں )خطے میں ایران کے حریفوں نے اربوں ڈالر مغربی دنیا خصوصاً برطانیہ سے اسلحہ خریدنے میں خرچ کیے ہیں۔ لیکن ایران نے اس سے کہیں کم پیسوں میں پابندیوں میں گھرے ہونے کے باوجود خطے میں روابط کے ذریعے  برتری حاصل کی ہے۔


ایران کا شام، لبنان، عراق اور یمن کے معاملات میں کافی اثر و رسوخ ہے بلکہ کچھ ممالک میں تو وہ براہِ راست مداخلت کرتا ہے۔


ایران نے سعودی عرب پر یہ برتری کیسے حاصل کی؟



ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں خفیہ انداز میں غیر ریاستیعناصر کے اتحاد کا نیٹ ورک جنھیں اکثر 'پراکسی ملیشیا' کہا جاتا ہے، بنایا ہوا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔لبنان میں حزب اللہ سے شروع کرتے ہوئے سنہ 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کی ایران واپسی کے بعد سے ایران نے اپنے انقلابی نظریے کی درآمد کے ساتھ ساتھ اپنا اثر و رسوخ بھی اپنی سرحدوں سے باہر پھیلایا ہے۔


لیکن آئی آئی ایس ایس کی 'ایران کے نیٹ ورک اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کا اثر و رسوخ' کے عنوان سے جاری کردہ 217 صفحوں کی رپورٹ میں ایران کے خطے میں آپریشنز اور رسائی کی ایسی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جو پہلے کبھی منظر عام پر نہیں آئیں۔رپورٹ کے مطابق 'اسلامی جمہوریہ ایران نے مشرق وسطیٰ میں مؤثر طاقت کا توازن اپنی طرف کر لیا ہے۔' اس رپورٹ کے مصنفین کے مطابق ایران نے ایسا پُر اثر کارروائیوں اور تیسری پارٹی کے استعمال سے روایتی طور پر برتر طاقتوں کا مقابلہ کر کے حاصل کیا۔اس حوالے سے اہم ترین کام پاسدارانِ انقلاب کے داخلی آپریشنز کے شعبے قدس فورس نے کیا ہے۔قدس فورس اور اس کے لیڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی کو براہ راست جواب دہ ہوتے ہیں جو ایران کے روایتی فوجی ڈھانچے سے مختلف ایک آزادانہ ادارہ بن گیا ہے۔سنہ 2003 میں امریکہ کی جانب سے عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد قدس فورس نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے آپریشنز میں تیزی لائی۔ ان آپریشنز میں تہران کے حمایت یافتہ غیر ریاستی عوامل کو ٹریننگ، وسائل اور اسلحے کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔


ایران نے اس حوالے سے غیر روایتی جنگی طریقے بھی اپنا لیے ہیں، جیسے ڈرون اور سائبر حملے۔ اس حکمتِ عملی کے ذریعے یہ دشمن کے بہتر روایتی اسلحے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔رواں برس اپریل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاسدارانِ انقلاب اور قدس فورس کو غیر ملکی دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ امریکہ نے ایک ریاستی ادارے کو غیر ملکی دہشتگرد تنظیم قرار دیا۔


ایران نے ٹرمپ کے اس فیصلے کا جواب دیتے ہوئے خلیج میں تعینات امریکی فوج کو دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا جو ایک علامتی اقدام تھا۔سنہ 2001 سے 2006 کے درمیان برطانوی وزیرِ خارجہ جیک سٹرا تھے جنھوں نے متعدد مرتبہ ایران کا دورہ بھی کیا اور ان کا خیال ہے کہ جنرل سلیمانی کا کردار ایک ملٹری کمانڈر سے بڑھ کر ہے۔انھوں نے کہا کہ 'قاسم سلیمانی اصل میں خطے میں اتحادیوں کے ذریعے (ایران کی) خارجہ پالیسی چلا رہے ہیں۔'


اس پوسٹ کو شیئر کریں