فیصلہ بابری مسجد : ملت اسلامیہ اس فیصلہ سے ما یوس نہ ہواور اپنی مساجد کو آباد رکھیں..... آواز قلم فہیم انور اعظمی ولید پوری


طویل مدت کی مسافت کی منازل کو عبور کرنے اوردونوں فریقین کے دلائل اور شواہد سننے کے بعد اب ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ اپنے فیصلے کو دونوں فریقین اورپورے ملک ہندستان کی عوام کے سامنے عدل اور انصاف کے میزان پر اپنے فرامین کو صادر کردیا ہے اس فیصلے کے صادر ہوتے ہی صدیوں سے چلی آرہی انتشار کی دیوار منہدم ہوگئی اور بابری مسجد کا قضیہ بھی اپنے وجود اور شواہد کے ساتھ ہمیشہ ہمیش کے لئے دفن ہو گیا جس کو لیکر مسلم فریق نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ظفر یاب جیلانی نے اپنے موقف میں اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا احترام کرتے ہیں مگروہ سپریم کور ٹ کے موقف سے مطمئن نہیں جس کے لئے وہ بورڈ کے فیصلے کے بعد کسی آخری نتا ئج پر پہچ سکتے ہیں ظفر یاب جیلانی نے اپنے مو قف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسجد کے وجود کے متعلق تمام ثبوتوں اور دلیلوں کا اعتراف خود سپریم کورٹ نے کیا انہو ں نے کہا کہ کورٹ نے تسلیم بھی کیا کہ1528میں میر باقی نے مسجد تعمیر کی تھی کورٹ نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ 22: 23 دسمبر1949تک مسلسل نماز ہوتی رہی جبکہ اس بات کو خارج کیا ہے کہ مسجد کی جگہ پر کسی مندر کو توڑ کر مسجد کو تعمیر کیا گیا اس ضمن میں اے ایس آئی کی رپورٹ میں جو کجھ دلائل مو جود ہیں وہ صاف نہیں ہے اور نہ ہی اس سے ہندو فریق کے دعوں کی تصدیق ہوتی ہے جبکہ سپریم کورٹ نے اپنے موقف میں اس بات کا اعادہ کیا ہےکہ مسجد کی تعمیر کے بعد 18 صدی تک اس متنازعہ زمین پر نماز ادا کرنے کا ثبوت نہیں ملتا جو کہ بے بنیاد ہے جس دن رات کے اندھیرے میں ملک کی تا ریخی مسجد کے محراب کے پاس رام جی کی مورتیاں رکھی گئیں اس دن بھی اس تا ریخی بابری مسجد کے اندر عشاءکی نماز با جماعت ادا کی گئی جس کو سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ مسجد کے اندر جو بھی مورتیاں رکھی گئیں وہ غیر قانونی تھیں اور6 دسمبر کو شر پسند عنا صر کی جانب سے جو مسجد کو شہید کیا گیا وہ بھی غیر قا نونی تھا سپر یم کورٹ نے مسلم فریق کے تمام دستاویزات اورتمام شواہد کو تسلیم کرنے کے بعد بھی سپریم کورٹ نے آستھا اور عقیدت کی بنیاد پر اپنے فیصلے کو صادر کردیا جس کو لیکر مسلم جما عت غیر مطمئن نظر آئیں مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کیا اور مسلم جماعت سے اس بات کی اپیل کی کہ وہ اس فیصلے سے نا امید نہ ہو اور اپنے عمدہ اخلاق اور باہمی ہم آہنگی سے برادران وطن کا دل جیتنے کی کو شش کریں اور ایسی فضاءقائم کریں کہ جس سے قیاس آرائیوں کے ماحول پر قد غن لگا کر مستقبل میں اپنے کٹھن مراحل بر انگیختہ حالات کوآسان بنا یا جائے جس طرح سے ماضی میں ہندو مسلمان کے در میان الفت ور محبت کا جو رشتہ قائم تھا وہ مستقبل میں بھی بر قرار رہے بہر کیف سپر یم کورٹ نے جو بھی فیصلہ صادر کیا اس کے فیصلے کا دونوں فر یقین نے استقبال کیا اور ہونا بھی چا ہئے ایسا ہی صدیوں کے تضاذ کو سپریم کورٹ نے آج اپنے فیصلے سے ختم کردیا اب دو نوں فر یقین کو مستقبل کی راہ دیکھنی ہے جس سے کہ مذہبی امور کے تضاذ کو ختم کر ایک جدید معا شرے کی تشکیل دی جا سکے یہ وہی بابری مسجد ہے جو آزادی کا سورج طلوع ہونے کے دو سال بعد متنا زعہ شکل اختیا ر کر گئی جس کو 1949 میں عقیدت مندی اور آستھا کی بنیاد پر بند کردیا گیا اور 6 دسمبر 1992 کو شر پسند عنا صر کی جا نب سے شہید کردیا گیا جس کے بعد سے پورے ملک کے اندر فساد کے شعلے بھڑک اٹھے جن میں ہزاروں لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں اور ہندو مسلمان کے درمیان مذہبی امور پر نفرت و منافرت کی چنگاری نے الفت محبت کے شیرازہ کو چور چور کر دیا با بری مسجد کا قضیہ مذہبی امور کا حصہ نہیں بلکہ سیا ست کا ایک حصہ بن چکا تھا جس کی بنیا د بی جے پی کے قدآور لیڈر لال کرشن اڈوانی نے ڈالی اور رام چندر کی جائے پیدائش کو آزاد کرنے کی غرض سے وشو ہندو پریشد کے عہدداران اور ذمہ داران نے 1984 میں اس تحریک کی ذمہ داری لال کرشن آڈوانی کے سپرد کی جس کی بناءپر مذہبی شدت پسندی کو عروج اور تقویت بخشی گئی اور مذہب کی بنیاد پر ا کثریت کو مشتعل کیا گیا اور مسجد کی اراضی کو آزاد کرانے کے ضمن میں اشتعال انگیز تقاریر بھی گئی مگر صوبائی اور مرکزی حکو متیں ان کے شور شرابہ پر قد غن لگانے کے بجائے تماش بین نظر آئیں جس کا نتیجہ یہ اخد ہوا کہ وشو ہندو پر یشد اور بی جے پی نے مشتر کہ طور پر 1989 اور 1991 کے در میان پورے ملک میں سو مناتھ سے ایو دھیا تک رتھ یاترا نکا لی اور مسجد کے تقدس کو پامال کرنے اور زمین کو آزاد کرانے کی غرض سے اکثریت کے جذبے کو مشتعل کیا گیا مگر افسوس کہ پورے ملک میں چلنے والی تحر یک کی خبر اور ان کے قائدین پر شکنجہ کسنے کے ضمن میں ہما رے ملک کی مر کزی اور صو بائی حکو متیں گھٹنے ٹیکتے ہوئے نظر آئیں جس سے عقیدت مندی اور آستھا کو مضبوطی فراہم ہوتی گئی اور محبت کی نگری امن و محبت کی سر زمین شدت پسندی کے سایہ میں گنگا جمنا تہزیب و ثقافت میں اپنے خونی پنجے کو نصب کرنے میں کا میاب ہو گئی 6 دسمبر 1992 کو دن کے اجالے میں مذہبی شدت پسندی نے اس قدر اکثریتی طبقہ کے ضمیر کو بیدار کیا کہ مذ ہبی جنون میں ایک تا ریخی مسجد کو شہید کر دیا گیا اور ہمارے ملک کے تمام محا فظین مسجد کو تحفظ کو فراہم کرنے میں بے بس نظر آئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک تا ریخی مسجد چند گھنٹوں میں زمیں زود کر دیا گیا جو ہمارے ملک اور جمہوریت کے نظام عمل میں ایک سیاہ دن تھا اس لئے کہ تا ریخ نے وہ منظر دیکھا جو کہ شا ید اس طرح کی نفرت و منا فرت اور تعصب کے جذبے کو آزادی سے قبل ہمارے ملک کی عوام نے دیکھا ہو مگر پھر بھی ہم مسلمانان ہند سکوت اور صبر وتحمل کے جذبے کے ساتھ سر زمین ہندستان میں بکھرتی ہوئی انسانیت کے در میان محبت و اخوت نفرت کے با زار میں محبت کے گلدستے تقسیم کرتے ہوئے نظر آئے ہم نے کبھی بھی انتقا می جذبے سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے ملک کی سلامتی اور اس کے تحفظ و بقاءکے ضمن میں ہر محاذ پر اپنے ایمانی جذبے کا درس اور اسلامی تعلیمات میں صبر و تحمل کے اعلی و ارفع مقام کو گلے لگاتے گئے اور اپنے بھا ئیوں کے لئے یہ پیغام دیتے گئے کہ مندر کی تعمیر سے بہتر اپنے دل کا مندر ہے اگر ہمارے دل میں اپنے بھائی کے لئے محبت کے دئیے روشن ہیں تو گویا وہ دل ہی ایک انسان کا مندر ہے اگر دل میں ہی انسان اور انسانیت کے لئے تعصب اور خرافات اور نفرت کا با زار گرم ہو تو وہ انسان لائق تحسین نہیں اس لئے کہ دنیا کے اندر جتنے بھی مذاہب ہیں تمام مذاہب کے اندر ایک انسان کے وجود اور اس کی تحفظ و بقاءکو بہت ہی اہمیت دی گئی ہے مذہب اسلام نے تویہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایک انسان کی جان کی قیمت خانہ کعبہ کی عظمت سے زیا دہ ہے اور ایک انسان کا وجود اور اس کی بقاءسماج تہزیب و ثقافت اور معا شرے کے لئے ایک جزوی روح کے متلاشی ہے آج با بری مسجد کا فیصلہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت تھا جہاں پر دو نوں فر یقین نے اپنے مضبوط دلائل اور شواہد کورٹ کے سا منے پیش کئے جہاں پر حق و ملکیت سے منحرف ہو کر سپریم کورٹ نے آستھا اور عقیدت مندی کی بنیاد پر اپنے فیصلے کو صادر کردیا اور سپر یم کورٹ نے اپنے موقف میں اس بات کا اعتراف کیا کہ مسلم فریق مسلم فریق اپنے مضبوط دلائل و شواہد کو کورٹ کے سا منے پیش کرنے میں نا کام رہا جس کے سبب ہندو فریق کے دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے جج صا حبان نے رام جنم بھومی کے حق میںاپنے فیصلے کو صادر کیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ حکم نامہ جاری کیا کہ مسلم فریق کو بھی ایو دھیا کے اندر پانچ ایکڑ زمین دی جا ئے گی جس پر مسلم فریق مسجد کی تعمیر کرسکتے ہیں فیصلہ سے قبل ہی پورے ملک کی عوام کے اوپر اس بات کا زور دیا گیا کہوہ عدالتی فیصلے پر نہ تو کوئی جشن منائےں ا ور نہ ہی کسی قسم کی شکست خوردگی ا ور احساس کمتری میں مبتلا ہوں فیصلے کا فر امین صادر ہونے کے بعد ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے اندر اس بات پر زور دیا کہ اس فیصلے کو کسی فریق کو ہار اور جیت کے طور پر نہیں دیکھنا چا ہئے یہ وقترام بھکتی اور رحیم بھکتی کا نہیں بلکہ دیش بھکتی کا ہے اور انہوں نے عوام سے ملک کے اندر پر امن فضا ءکو قائم رکھنے کی اپیل کی قابل ذکر بات ہے کہ سپر یم کورٹ کے فیصلے نے ہندو فریق کے عزم کو زمینی سطح پر مضبوطی فراہم کی جس کی بناءپر ایودھیا کی سر زمین پر ایک عا لیشان مندر کا خواب ان کا مکمل ہوا تو وہی دوسری جانب اس فیصلے کو لیکر مسلم فریق تذبذب اور احساس کمتری کا شکار ہے مگر سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی مسلم فریق کے نز دیک مشعل راہ اور قابل تحسین ہے جس کا استقبال پورے ملک میں مسلم جما عت نے کیا اور اس بات کا شکریہ ادا کیا کہ صدیوں کا تضاذ اب ختم ہوا جس مسئلہ کو لیکر ہندو مسلمان کے در میان الفت و محبت کا شیرازہ بکھر چکا تھا اب وہ سلسلہ ختم ہوا اب ہمیں با ہمی اتحا دو اتفاق کے ساتھ ملک کی ترقی کا مستقبل دیکھنا ہے اور اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہماری محبت کے دروازے ایک دو سرے کے لئے ہمیشہ کھلے رہے اور ہم سب مذ ہبی امور سے ہٹکر ایک دو سرے کے ہمدرد بنے