تحریر........مطیع الرحمن عزیز
15جنوری 2017کو وزیر اعلیٰ دہلی اروند کجریوال نے ایک انٹرویو میں دعوی کیا تھا کہ اکبر الدین اویسی نے 2014میں مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کرنے کے لئے امت شاہ سے رات کے تین بجے خفیہ میٹنگ کی تھی۔ جس بات کی ایک عینی شاہد نے گواہی کے طور پر اروند کجریوال کو خط لکھ کر اس بات کی اطلاع دی تھی۔”جس کو یو ٹیوب پر کجریوال آن اکبر اویسی سرچ کرکے دیکھا جا سکتا ہے“ جس کے ضمن میں اروند کجریوال نے کہا تھا کہ اگر ایسا ہے تو معاملہ بہت خطرناک رخ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ٹھیک آج وزیر اعلیٰ بنگال ممتا بنرجی نے ملک کی سب سے بڑی الیکٹرانک میڈیا ایجنسی اے این آئی کو اپنا بیان دے کر یہ بتایا ہے کہ ملک میں حیدر آباد سے آنے والی پارٹی ملک کے اقلیتوں کے ووٹوں کو تقسیم کرنے کیلئے رقم لے کر ماحول بناتے ہوئے سازش کے طور پربھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ موقر عہدے پر فائز دو ہستیوں کا مسلسل ایک جیسا بیان اور اویسی کی خاموشی اس بات کی تصدیق ہے کہ کہیں نہ کہیں بات میں سچائی اور حقانیت پائی جاتی ہے۔ ایک جانب مسٹر اویسی ایک ایک شخص پر تیس تیس چالیس چالیس مقدمات کروا کے اپنی بیرسٹری کا لوہا منواتے ہیں۔ دوسری جانب اروند کجریوال کے کھلے عام پریس کو دئے گئے انٹرویو پر اس طرح کی خاموشی کہیں نہ کہیں سوالات کھڑے کرتے ہیں۔
اویسی کی سیاست میں جس طرح کی پالیسی ہے اس سے ان باتوں کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے زیادہ دیر سوچنا نہیں پڑے گا کہ مسٹر اویسی ملک کے مسلمانوں کے لئے آنے والے دنوں میں خطرہ ہی نہیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ ایم آئی ایم پارٹی کے قیام سے لے کر اب تک ہوئے الیکشن پر اگر روشنی ڈالی جائے تو سب کا خلاصہ ایک نکل کر سامنے آتا ہے کہ مسٹر اویسی مسلمانوں کے خائن ہیں، مثال کے طورپر جب تک اویسی کے والد گرامی جناب سلطان صلاح الدین اویسی میدان سیاست میں تھے پورے پچاس سال کی سیاست میں انہوں نے ایک سیٹ سے زیادہ ممبر پارلیمنٹ اور پانچ ایم ایل اے سیٹوں کے لڑنے کی کوشش نہیں کی۔ اب جب کہ اویسی کے ہاتھ میں ایم آئی ایم کی باگ ڈور ہے اس وقت ریاست تلنگانہ میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے رہے ہیں ۔ جہاں صرف آٹھ ایم ایل اے کی سیٹیں اتارتے ہیں اور بھارتیہ جنتاپارٹی کے ساتھ اتحاد میں رہنے والی کے سی آر کو مکمل میدان فراہم کرتے ہیں کہ حکومت میں رہے اور پوری طرح سے مسلمانوں کے معاملات سے کھلواڑ کرے۔
2014میں بہار الیکشن کیلئے مسٹر اویسی نے بہار میں چالیس کے لگ بھگ سیٹیں اتاریں ۔جس میں سے ایک پر بھی کامیاب نہیں ہوئے، البتہ سیکولر پارٹیوں کو ہرانے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو جتانے کا کام پوری طرح سے عمل میں لایا گیا۔ اسی طرح سے 2014کے لوک سبھا الیکشن میں بھی کثیرسیٹوں کے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو کامیاب بنانے میں بھرپور مدد کی۔ اور دوسری پارٹیوں کو ہرانے میں مکمل اویسی اور ایم آئی ایم کا ہاتھ رہا۔ اسی طرح سے 2019کے الیکشن میں بھی بی جے پی کیلئے پوری طرح سے مسلمانوں کے ووٹ کو تقسیم کرکے ونچت اگھاڑی اور ایم آئی ایم نے مدد صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ مہاراشٹر ودھان سبھا الیکشن میں ایم آئی ایم اور ونچت اگھاڑی نے الگ الگ لڑکر اقلیتوں کے ووٹوں کو تقسیم کرنے کا کام کیا۔ اسی درمیان قابل ذکر معاملہ یہ بھی ہے کہ عارف نسیم جیسے قد آور مسلم ایم ایل اے اور مشہور لیڈر کو اویسی کی پارٹی کے گیارہ سو ووٹ پانے والے ایم آئی ایم کے امید وار نے کافی رول ادا کیا۔
غور کرنے کی بات یہ بھی ہے مسلمان اب بیدار ہو رہے ہیں۔ اپنے مقامی ریاست تلنگانہ میں جہاں اویسی اینڈ کمپنی نے سات سیٹوں سے زیادہ نہیں اتارے ، وہیں مہاراشٹر جیسی دور کی ریاست میں انہوں نے پچاس سیٹیں اتار دیں ۔ جہاں کہیں پانچ ہزار ووٹ ملے تو کہیں سات ہزار۔ اور پانچ سال قبل جہاں ایم آئی ایم دو سیٹوں پر تھی وہیں دوسری جانب پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی وہیں دو ہی نئی نویلی سیٹیں دستیاب ہوپائیں۔ اور پرانی دونوں سیٹوں سے ایم آئی ایم کو ہاتھ دھونا پڑا۔ کیونکہ یہ بھی بات قابل ذکر ہے کہ اویسی کی ایم آئی ایم سے جیتنے والے کارکنان کام پر کم اور دیگر چیزوں پر زیادہ توجہ رکھتے ہوئے دکھائی دئے ہیں۔ اور یہی وجہ رہی ہے کہ ممبئی کے بائیکلہ علاقہ سے اپنے اکلوتے ایم ایل اے وارث پٹھان کو جتانے کے لئے اویسی نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ وارث پٹھان کو ایک بار پھر سے کامیاب بناﺅ ، کام کیلئے میں مہینے میں ایک دفع میں ضرور لگا لیا کروںگا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ علاقہ کے لوگوں کا پانچ سال آپ نے کس خواب غفلت میں گزار دئے۔ خیر ایم آئی ایم کے بائیکلہ سیٹ کے امیدوار وارث پٹھان کو بری طرح سے شکست کا سامنا ہوا۔ لہذا معلوم ہوا کہ عوام کا وقت خراب کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عوام دوبارہ دھوکا نہیں کھا سکتی۔ابھی فی الوقت مکمل ممبئی سے ایم آئی ایم اور اویسی چہرہ کو ناپسند کرتے ہوئے وہاں سے صفایا کر دیا گیا ہے۔
ابھی فی الحال اویسی اینڈ کمپنی اپنے امیدواروں کی بڑی تعداد جھارکھنڈ میں اتارنے جا رہے ہیں، جہاں ابھی تک مکمل ایک دورہ اویسی صاحب کا دیکھا گیا ہے۔ بتانے والے کہتے ہیں کہ جھارکھنڈ میں جب ابھی تک اویسی نے کارکن تک بنانے کی مہم شروع نہیں کی ،تو کس لالچ میں جھارکھنڈ جیسی پندرہ سو کلو میٹر دور کی مسافت پر الیکشن لڑنے چل نکلے ۔ جب کہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اپنے مقامی ریاستوں میں زیادہ سے زیادہ امیدوار اتار کر اپنی شبیہ پر توجہ دی جاتی ۔ ممکن ہے عوام اویسی کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ۔ لیکن جن قلعوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی پیٹھ نہیں بن پاتی ،وہاں اویسی اینڈ کمپنی کا سہارا لے کر مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کردیا جاتا ہے۔ اور اتنے ہی مارجن سے جیت درج کی جاتی ہے جتنے ووٹ ایم آئی ایم کو دستیاب ہوتے ہیں۔ چونکہ جھارکھنڈ میں مقابلہ کافی سخت ہے۔ اور بغیر چال چلے بی جے پی کی فتح ممکن نہیںہے ، لہذا تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی پر اویسی کو کانٹرکٹ بآسانی میسر ہوجاتا ہے۔
مسلمانوں کے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ بغیر کسی پارٹی اور قیادت کے انہوں نے اپنی بیداری کا ثبوت دیا ہے۔ لہذا اب یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ اپنے گھر میں کم اور دوسرے گھر میں زیادہ دعوے داری کن لوگوں کی پہچان ہوتی ہے۔ اسی خیانت کے خاتمے کیلئے مسلمانوں نے مہاراشٹر میںاتحاد دکھایا ،اور ایم آئی ایم کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایسی سیاسی سوج بوجھ کا ثبوت دیا ہے کہ برسوں سے اقتدار سے دور رہنے والی کانگریس ، این سی پی اور شیو سینا کے ناممکن اتحاد کو ممکن تک لا کھڑاکیا۔ یہ بات بھی عوام سے مخفی نہیں ہے کہ اویسی اپنے سوتیلے پن کی سنک میں آنے والی تمام مسلم قیادت کو روندنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ تازہ ترین معاملہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کا ہے ، جن کے سیاست میں اترتے ہی اپنے سیاسی رسوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آج تک انہیں جیل میں قید کررکھا ہے۔ ٹھیک اسی طرح ڈاکٹر ایوب اور علماءکونسل کے صدر عامر رشادی صاحب کی مقبولیت اویسی صاحب کے گلے کی پھانس بن گئی۔ اسماعیل باٹلی والا کے قول کے مطابق جب جب مسلم اتحاد کی کوشش کی گئی ایم آئی ایم نے شرکت نہیں کیا اور اتحاد کی کوشش کو بھی چکناچور کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اویسی صاحب کو یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ غلط پالیسی زیادہ دیر تک چلنے نہیں پاتی ،ایک نہ ایک دن اس کی قلعی کھل جاتی ہے۔ اسی غلط پالیسی کے تحت اویسی بنگال اور دہلی کی طرف ممتا بنرجی اور کجریوال کے قلعے کو تقسیم کے ذریعہ ڈھانے کی کوشش میں تیار بیٹھے ہیں۔
(یہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے،ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)