امتیاز اظہر
راجباٹی، ماجھیر پاڑہ،دیارا
مدھیم گرام،شمالی چوبیس پرگنہ
آے دن ہم اور آپ فیس بُک پر ایک مخصوص جملہ دیکھتے رہتے ہیں، ”ہارن آہستہ بجائیں،ابھی قوم سورہی ہے۔“یہ جملہ بھلے ہی پڑھتے وقت آپ کو یا ہمیں ایک معمولی سا جملہ لگتا ہوگا لیکن اس مختصر سے جملے میں وہ گہرائی ہے،جسکی تہہ تک جانا ہم سبھوں نے کبھی گوارا نہیں سمجھا۔کہتے ہیں کہ جو قوم بے ضمیر ہوجایا کرتی ہے،جس کے اندر سے قوتِ فہم وفراست دم توڑنے لگتی ہے اور جس کی شناخت دھیرے دھیرے کسی تاریکی میں گم ہوجانے کے کگار پر ہوا کرتی ہے، وہ قوم اپنے وجود کو زیادہ دنوں تک بچا نہیں سکتی۔کسی قوم کی زوال پذیری کے ایک نہیں بلکہ کئی اسباب ہوا کرتے ہیں ۔آج کے حالات کو دیکھتے ہوے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہماری قوم بھی اپنی زوال پذیری کی راہ ہموار کررہی ہے۔یا یوں کہا جاے تو بے جا نہ ہوگا کہ زوال پزیری کی راہ ہموار کرنے کا یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ برسوں سے جاری ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اب ہمارے وجود کو خطرہ لاحق ہورہا ہے۔ایسا اس لیے ہے کہ دُنیا کی دوسری زوال پذیر قوموں کی طرح ہم نے کبھی خود پر نگاہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔اپنے احتساب کرنے کے بجاے ہم نے دوسروں پر تنقیدوں کی بارشیں برسائیں۔صرف اپنے مسند کو بچانے کے لیے مختلف فرقوں میں ہم نہ صرف تقسیم ہوے بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہم نے کوئی بھی کسر باقی نہیں رکّھی۔ ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر فسطائی طاقتیں ہم پر کیوں غالب ہورہی ہیں؟ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چند مٹّھی بھر سنگھ پریوار کے لوگ پورے ہندوستان سے ہم مسلمانوں کو کھڈیڑنے کی ہمت کہاں سے جُٹا پاے؟ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیوں فرقہ پرستوں کی چند گنی چُنی جماعتیں اُس قوم پر 'دہشت گرد 'کے احاطے میں گھیرنے کی کوشش کررہی ہیں ، جس قوم کے لاکھوں علماے دین نے اِسی ملک ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے بچانے کے لیے اپنی اپنی شہادتیں پیش کی ہیں؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو بلا شبہ ہمیں جھنجھوڑ سکتے ہیں لیکن سوال یہ اُٹھتا ہے کہ جھنجھوڑا کسے جاے۔جس قوم کا عالم یہ ہو کہ کُھلے عام اُس کے وجود کو للکارا جارہا ہو،اس کی وراثت کو سرِ عام نیست و نابود کیا جارہا ہو،اس کے سامنے قرآن کے پارے جلاے جارہے ہوں،اذان پر پابندیاں لگائی جارہی ہوں،گاے کے نام پر اس کی نگاہوں کے سامنے اس کے مسلم بھائیوں کا قتلِ عام ہورہا ہو اوربے بس اورلاچار بہنوں کی عزّت پر بن آرہی ہولیکن ہاے رے بد قسمتی کہ اِن تمام سانحات و حادثات کے باوجود بھی یہ قوم خوابِ خرگوشی کا شکار نظر آرہی ہے۔گھروں میں گانے بجانے کے سلسلے تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔،جلسوں میں عزّت مآب مقررین و واعظ کی زبانوں پر اتحادو اتفاق کے بجاے مسلکی اختلافات عام ہورہے ہیں۔دینی جلسے ہوں یا سیاسی جلسے، حالاتِ موجودہ کے تناظر میں تفصیلی گفتگو کے بجاے وہی پرانے اور گھسے پٹے موضوعات پر تقریریں کی جارہی ہیں۔
بابری مسجد کی شہادت کو 6دسمبر1992ءسے لے کر 9نومبر 2019ءتقریباً 27 سال گزر گئے۔اِن ستائیس سالوں میں ہماری طرف سے یقیناً مسلم پرسنل لاءبورڈ نے نہ صرف نمائندگی کی ہے بلکہ اپنی حتی المقدور کوششوں کے سبب کئی ایسے پہلوﺅں کو اُجاگر کرنے میں کامرانیاں بھی حاصل کی ہیں جن کا اعتراف ہر باضمیر ہندوستانی کو کرنا پڑے گا۔مثلاً کل تک یہی سنگھ پریوار والے یہ کہتے دکھائی دے رہے تھے کہ بابری مسجد 1582 ءمیں بابر کی حکومت میں مندر توڑ کر بنائی گئی تھی، جس مقام پر بابری مسجد قائم کی گئی تھی، در اصل وہ پربھو رام کا جنم استھان ہے، دسمبر1949 ءسے قبل اس مسجد میں نمازیں نہیں پڑھی جارہی تھیں وغیرہ وغیرہ۔اپنی بھرپور ہمہ جہت کوششوں سے بورڈ نے کم از کم قانونی طور پر عزّت مآب سپریم کورٹ کو اپنے Judgementمیں یہ آرڈر لکھنے پر مجبور کر دیا کہ جو دلیلیں سنگھ پریوار اپنے متذکّرہ باتوں کے تئیں پیش کررہے تھے، کلّی طور پر وہبے بنیاد ہیں۔یعنی آزادی کے بعد بھی اس مسجد میں نمازیں پڑھی جارہی تھیں۔22 ۔23 دسمبر 1949ءکی رات مسجد کے اندر دو مورتیاں غیر قانونی طور پر رکّھی گئیں تھیں۔کسی مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر نہیں کی گئی تھی۔آستھا کی بنیاد پرکورٹ نے یہ تسلیم ضرور کیا کہ پربھو رام کا جنم ایودھیا میں ہوا تھا لیکن مخصوص وہی جگہ تھی جہاں بابری مسجد کا قیام تھا،اس کا ذکر Aecheological Survey Of Indiaنے نہیں کیا ہے۔عدالتِ ؑظمٰی نے یہ بھی تسلیم کیا کہ 6دسمبر 1992ءکو مسجد کا شہید کیا جاناقانوناً جرم تھا۔بے شک ،مسلم پرسنل لاءبورڈ کا یہ عظیم کارنامہ تھا جس کے سبب وہ تمام تر باتیں عدالت عظمٰی کے احاطہ ئِ تحریر میں آگئیں جن کے بارے میں ایک عام ہندوستانی گمان بھی نہیں کر سکتا تھا۔لیکن آخر اِن تمام مدلل ثبوتوں اور شہادتوں کو پیش کرنے کے باوجود ہمیں انصاف نہ مل سکا ۔آخر کیوں؟ اس سوال پر نہ صرف ہمیں بلکہ قوم کے رہبروں کو،قوم کے پیشواﺅں کو اور قوم کے دانشور طبقے کو ایک پلیٹ فارم پر آکر نہایت ہی سنجیدگی سے غور فرمانے کی ضرورت ہے۔
Micro Level اور Macro Level بہ ظاہر دو مختلف Terms ہیں لیکن دونوں ہی لفظ ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔کسی خاص تقریب میں راقم الحروف نے جناب محمد عبداللہ(حالیہ ملازم،کلکتہ یونیورسٹی)سے یہ کہتے سنا تھا کہ ہماری قوم فی زمانہ Micro level میں کام تو کررہی ہے۔لیکن Macro Level میں اس کی دلچسپی نہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ دوسروں کو ہماری قوم کے نوجوان اُس مقدار میں ترقی کی طرف آگے نہیں بڑھ پارہے ہیں، جس کی ضرورت آج ہمیں ہے۔۔ناچیز صد فی صد موصوف کے اس دلیل کو اعتراف کرتا ہے۔لیکن اپنے اس مضمون کے حوالے سے راقم التحریر موصوف کے خیال کے متضاد اپنا نظریہ رکھتا ہے ۔راقم السّطور کا ماننا ہے کہ اعلٰی سطحی مقام پر براجمان ہمارے بیشتر مفکرین،علماے دین اور دانشورانِ قوم و ملّت Macro Level میں اپنی اپنی خدمات انجام دے تو رہے ہیں لیکن جب Micro Level پر نگاہ ڈالنے کی ضرورت پڑرہی ہے اُن کی اس جانب کوئی خاص توجہ مبذول نہیں ہو پارہی ہے۔ہمارے کہنے کا مدّعا یہ ہے کہ جو رہبرانِ ملّت Grass Levelمیں کام کررہے ہیں اور وقتاً فوقتاً مسلکی تنازعات کے شکار ہورہے ہیں تو اعلٰی سطحی مقام پر بیٹھنے والوں کو Micro Levelمیں آکر ان بھٹکے ہوے لوگوں کوخبردار کرنے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی علاقائی طور پر ایک ایسی تنظیم کے قیام پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جس میں مختلف جماعت کے سربراہان یکجا ہوسکیں تاکہ اُن کی اس یکجہتی کو دیکھ کر عام لوگوں میں بھی مسلکی اختلافات سے دور رہنے کی راہ ہموار کیا جاسکے۔صرف مختلف تشدّد پسند تنظیمیں ہی نہیں بلکہ پورا ہندوستان اس بات سے باخبر ہے کہ ہم مسلکی اعتبار سے مختلف گروہوں میں بٹے ہوے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف علی الاعلان طنز کے نشتر چلاتے بھی رہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہندوﺅں میں گروہ بندیاں نہیں،اُن میں ہم سے بھی زیادہ جماعتیں ہیں لیکن کیا آپ نے کبھی اخباروں میں ،نیوزچینلوں میں یا فیس بُک پراُنھیں کسی نکتہ پر لڑتے جھگڑتے دیکھا ہے۔نہیں۔مذہبی معاملات کے تئیں اُن کے اندر ایکتا ہے،اتحاد ہے اور بھائی چارگی کی مثال دکھائی دیتی ہے۔اب ذرا آزادی کے بعد سے اب تک کا جائزہ آپ بھی لیں اور ہم بھی۔اِن برسوں میں ہم نے خود کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے کتنی جدوجہد کی ہے؟آپ جواب دیں گے،”بھرپور کوششیں کی گئیں ہیں۔“میں کہوں گا کہ کوششیں ضرور کی گئیں لیکن اُن میں وہ خلوص اور محبت کی خوشبو ہی نہیں تھی جس کے سہارے ہم دل کے گلستاں کو مشکبار کرپاتے۔
محترم!بابری مسجد اور رام جنم بھومی پر سُپریم کورٹ کے آے فیصلے پر اب چرچے ہورہے ہیں۔عزّت مآب کورٹ کے ایکس جسٹس مسٹراے۔کے۔گنگولی نے 10نومبر 2019ءکو ہی اپنے بیان میں یہ صاف کردیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ مطمئن بخش نہیں۔اس فیصلے میں حق پرستی کی جگہ آستھا کو اہمیت دی گئی ہے۔اگر مسجد۔مندر کے حوالے سے ایسا فیصلہ آسکتا ہے تو وہ دن دور نہیں کہ کسی بھی مُلزم کو محض آستھا اور وشواس کی بنیاد پر رہائی مل سکتی ہے۔جسٹس گنگولی نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ اس معاملے میں کوئی Judgement پیش کرتے تو اُن کا رویہ آستھا پر نہیں بلکہ سچائی پر مبنی ہوتا۔وہ یا تو شہید شدہ مسجد کو از سرِ نو تعمیر کرنے کا آرڈر پاس کرتے یا اس جگہ پر کسی اسپتال یا یونیورسٹی تعمیر کرنے کا فیصلہ سُناتے۔اور مسجد اور مندر دو مختلف مقامات پر بنانے کا حُکم دیتے تاکہ ملک کے دستور کی حرمت بھی باقی رہ سکے اور یہاںپر بسنے والوں میں بھائی چارگی اور خلوص مندی کی پرانی وراثت بھی باقی رہ سکے۔بہرحال ،جسٹس گنگولی کے اس بیان کے بعد یہ آئینے کی طرح صاف ہے کہ سُپریم کورٹ کے موجودہ پانچ ججوں کی ٹیم نے جو فیصلے دیے ہیں ،اُنھیں ایک بار اورRevue کرنے کی ضرورت ہے۔دوسری طرف عزّت مآب ممبر آف پارلیامنٹ اوربیرسٹرمحترم اسدالدّین اویسی نے بھی سُپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اپنی راے دی ہے اور اپنے نااتفاقی کا اظہار کرتے ہوے یہ بیان دیا ہے کہ ہے کہ اگر اس فیصلے پر عمل درآمد ہوتا ہے تو وہ دن دور نہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل خطرے میں ہوگا۔کسی بھی شر پسند جماعت کے ایک Complain پر نچلی سطح کی عدالتیں بھی مختلف علاقوں میں قائم مسجدوں کو توڑ نے کا حکم دیں گی اور A.S.Iکو یہ کہا جاے گا کہ اس کی تہہ تک وہ جاے اور پتا لگاے کہ یہاں کوئی مندر تھا یا نہیں۔صرف یہی نہیں بیرسٹر اویسی نے صاف لفظوں میں کہا کہ انھیں خدشہ ہے کہ اب ہندوستان 'ہندو راشٹر'کی طرف گامزن نہ ہوجاے۔متذکّرہ دو۔ دو بیانات کے پیشِ نظراس تلخ حقیقت سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ اب نہ صرف ہماری عبادت گاہیں خطرے میں ہیں بلکہ ہمارا وجود بھی محفوظ نہیں۔اس ضمن میں یقیناً جسٹس اے۔کے۔گنگولی یامسلم پرسنل لاءبورڈ کے ممبر محترم اسدالدّین اویسی کی طرح راقم السّطور بھی عزت مآب عدالتِ عظمٰی کے فیصلے کا احترام کرتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اُس کے دیے گئے فیصلے کو حرفِ آخر سمجھے۔لہذٰا،ہم مسلمانوں کو اور بالخصوص واعظانِ ملّت ہوں یا علماے دین،سبھوں کو اس فیصلے کے بعد اپنے اپنے نظریات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔افسوس اس بات پر ہے کہ ناچیز نے تقریباً مسجدوں میں خطباتِ جمعہ کے دوران یہی دیکھا اور محسوس کیا کہ بیشتر مقررین اپنے اپنے خطبے میں پرانے موضوعات پر ہی لمبی لمبی تقریریں کر گئے لیکن ان کے زبان پر بابری مسجد کے حوالے سے ایک بھی جملے نہیں آسکے۔کم از کم عام مسلمانوں کو پُرامن طریقے سے اس فیصلے کے نشیب و فراز سے آشنا کروانا بھی بے حد ضروری تھا۔تاکہ ہم نہ صرف اس کے Outcome سے باخبر ہوتے بلکہ آنے والے وقت میں ہمیں کس طرز سے زندگی گزارنی ہے،اس سے بھی باخبر ہوتے۔بہر حال، ہم تمام مسلمانانِ اسلام سے گزارش کرتے ہیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دوبارہ بابری مسجد کی شہادت نہ دہرائی جاے اورفسطائی طاقتیں ہمارے وجود کو ہلا نہ سکیں تو کم از کم ہمیں اپنے پرانے رویوں کو بدلنا ہوگا۔ہمیں ایک پلیٹ فارم پر آکر مسلکی حد بندیوں کو توڑنا ہوگا،ہمیں ہر دل میں اللہ عزّوجل کا خوف بھر دینا ہوگا۔قابض یا ویران مسجدوں کو شرپسندوں سے بچانے کے لیے اپنے اپنے سروں کو کٹانے کے بجاے ان مقدّس مقامات میں جاکر سر جھکانے کے لائق بنانا ہوگا ۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یقیناً کسی عدالت کو یہ کہہ کر کسی مسجد کی جگہ مندر بنانے کا حکم دینا نہیں پڑے گا کہ یہاں نمازیں نہیں پڑھی جاتی ہیں ۔بس ہمیں چاہیے کہ ہم اب اپنے وجود کو بچانے کے لیے اپنی پُرانی فطرتوں سے باز آجائیں ۔اللہ عزّوجل سے دعا ہے کہ وہ اپنے محبوبِ دوعالم حضرت محمد ﷺ کے صدقے ہمیں اپنے امان میں رکھے۔آمین!ثم آمین
٭٭٭٭٭