سرسید آج کے تناظر میں

حرفِ حق



پروفیسراخترالواسع



 محسن قوم وملت سرسیداحمدخاں کو ان کی یوم پیدائش کی مناسبت سے 17اکتوبر کو ان کے محبین اور تعلیم وتدریس سے تعلق رکھنے والے افراد ہر سال اوردنیاکے ہر خطے میں یاد کرتے ہیں، انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے اور ان کے نظریہ ¿ تعلیم سے مہمیز ہوتے ہیں۔سرسیدکی زندگی، ان کے فکروفن اور نظریات کے بے شمار پہلو ہیں جو نئی نسل کو نئی روشنی عطا کرتے ہیں۔ بلاشبہ سرسید قوم وملت کے ایسے روشن نظریہ ساز تھے جن کی روشنی ایک صدی سے دنیاکو منور کررہی ہے۔
 سرسیداحمدخاں ایسے دانشور تھے جن کی نظر کل پر تھی اور وہ ملک وملت کو ساتھ ساتھ ترقی کے بام عروج پر دیکھنا چاہتے تھے، انہیں اندازہ تھا کہ آنے والا کل کیسا ہوگا اور اس عہد میں ہمیں کیسے افرادکار چاہئیں، چنانچہ انہوں نے اپنا منصوبہ سالوں کے لیے نہیں بلکہ صدیوں کے لیے بنایا تھا۔ انہو ںنے علی گڑھ تحریک ہی نہیں چھیڑی بلکہ دیش اور دنیا کو ایک نئے وژن سے روشناس کرایا۔ سرسیداحمدخاں نے مقرر کی حیثیت سے نہیں بلکہ مدبرکی حیثیت سے مسلمانو ںکی رہنمائی کی۔ عام طورپر کہا جاتا ہے کہ 'لوہالوہے کو کاٹتاہے 'مگر سرسیدنے ادراک کرایاکہ کون سا لوہاکون سے لوہے کو کاٹتا ہے، انہوں نے بتایاکہ ٹھنڈا لوہا گرم لوہے کو کاٹتا ہے۔ سرسید کے اندر اخلاص، نیک نیتی، ایثار، اسلام کے لیے وارفتگی اور مسلمانوں کے لیے فکرمندی غیرمعمولی تھی۔
 1857ءمیں وہ انگریزوں کے حامی رہے لیکن اس کے نتیجے میں جب انگریزوں نے انہیں جاگیریں عطا کرنا چاہی تو انہو ںنے لینے سے انکار کردیا اور ”اسباب بغاوت ہند“ لکھی جس میں چشم کشا احوال درج کردیے۔ دراصل سرسید حکمت وتدبر کے بلندمقام پر فائزتھے، فرد کی ترقی پر وہ قوم کی ترقی کو ترجیح دینے کے قائل وعامل تھے۔ وہ کہتے تھے کہ شجاعت اور حماقت کے درمیان نہایت کم فاصلہ ہوتا ہے۔ انہو ںنے متعدد مواقع پر کہا کہ ہمیں صحیح وقت اور صحیح مقام پر دادشجاعت دینی چاہیے، بے موقع شجاعت کبھی حماقت کے زمرے میں آجاتی ہے۔ وہ اپنے عہدکے روشن خیال مفکر، عظیم نظریہ سازاور بلندپایہ اسلامی اسکالرتھے، جن کی کمی کاجو احساس ان کی وفات کے وقت تھا وہی احساس ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ملک وملت کے اندر آج بھی موجود ہے۔
 ہندوستان اس بات پر جتنا بھی ناز کرے کم ہے کہ پورے عالم اسلام میں جدیدتعلیم کاپہلا ادارہ علی گڑھ میں سرسید نے قائم کیا۔ اس کے بعد جدیدتعلیم کے لیے ادارہ سازی ہوئی وہ سب اسی کے ذریعہ پھیلائی ہوئی روشنی کانتیجہ تھا۔ سرسید نے جدیدتعلیم کے تصور سے پوری قوم کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آزادی ان قوموں کا مقدر ہوتی ہے جن کے پاس سیاسی شعور ہوتا ہے اورسیاسی شعور ان ہی کوہوتا ہے جوزیورتعلیم سے آراستہ ہوتا ہے۔ چنانچہ سرسید احمد خاں کے ذہن ودماغ میں صدیوں کانقشہ تھا اور ایک صدی کے بعدملک وملت کو کن چیلنجوں کاسامناہوگا ا س کو انہو ںنے بہت پہلے ہی محسوس کرلیاتھا۔اسی لیے وہ جدوجہدآزادی کے ساتھ ساتھ آنے والے کل کی بھی تیاری کررہے تھے کہ کس طرح ہم افرادتیارکریں جو مستقبل کی تعمیر وترقی کو یقینی بناسکیں،چنانچہ دنیانے دیکھ لیاکہ علی گڑھ تحریک نے دنیاکو روشنی عطاکی ،مسلمانوں کو تعلیمی شعوردیااور جدیدتعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی ایسی راہ دکھائی جس پر چل کرآج بھی سرخروئی حاصل ہورہی ہے۔
 آج کے ہندوستان میں جب کہ تعلیم کو نجی زمرے میں ڈال دیاگیاہے یہ بہترین موقع ہے کہ مسلمان سرسیدسے ایک بارپھر روشنی حاصل کرتے ہوئے اپنے کو نہ صرف جدیدتقاضوں سے ہم آہنگ کرےںبلکہ ایک نئی سوچ اورنئی توانائی کے ساتھ تعلیم وتکنیک کے شعبہ میں آگے بڑھیں۔ جذباتیت کے دائرے سے خود کو باہر نکالیں، کون امام اورکون مقتدی، اس سے بلندہوکر جامعہ ہمدرددہلی،انٹیگرل یونیورسٹی لکھنو ¿،گلوکل یونیورسٹی سہارنپور،بی ایس اے عبدالرحمن یونیورسٹی تامل ناڈو،الفلاح یونیورسٹی دھوج ہریانہ، الکریم یونیورسٹی کٹےہاراور مولاناآزادیونیورسٹی جودھپورکے طرز پر نئی یونیورسٹیاں ہرعلاقہ میں قائم کریں۔ یادرکھیں کہ ایسی یونیورسٹیوں کو اقلیتی ادارہ تسلیم بھی کروائیں لیکن غیرمسلم بچوںکی خاص طورپر پسماندہ طبقات کے بچوںکی تعلیم کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھیں۔اس لیے کہ ہندوستان کے مخلوط معاشرے میں انہیں جن کے ساتھ رہناہے ان سے وہ کم ازکم ان اداروں میں دوریاں کم کرسکیں اورفاصلوں کو قربت میں تبدیل کریں۔ جوپرانے ادارے انتظامیہ کے ہاتھوں مقدمہ بازی میں پڑے ہوئے ہیں، ان مقدمہ بازیوں کے نتیجے میں اداروں کی ترقی نہ صرف تنزلی میں بدل رہی ہے بلکہ مسلمانوں کے حصے میں ایک اجتماعی رسوائی بھی آرہی ہے اس لیے ان سے بچناضروری ہے۔
 سرسیداحمدخاں کو آج جب ہم دل وجان سے خراج عقیدت پیش کررہے ہیں توہمیں اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کرناہوگا کہ سرسیدکیاچاہتے تھے؟ اگر ہم نے ہندوستان بھر کے سیکڑوں چھوٹے بڑے ادارو ںمیں بپااختلافات اور باہمی چپقلش کو سرسیدکے یوم پیدائش کے موقع پر ختم کردیایا ختم کرنے کی ایسی کو ششیں 17اکتوبر کو مہم کے طورپر کی گئیں توسمجھا جائے گا کہ ہم سرسیدکو سچی خراج عقید ت پیش کررہے ہیں۔میری یہ تجویز ہے کہ ہندوستان کے دینی اورعصری اداروں میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں ان کو ختم کرنے کے لیے سماج کے ذی شعور اورہمدردان ملت آئندہ 17اکتوبر کو ایک ساتھ بیٹھیں اور جملہ متنازعہ مسائل کوحل کرنے کی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں سرسید کی قائم کردہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس جس کا مرکزی دفتر آج بھی سلطان جہاں منزل، شمشاد مارکیٹ علی گڑھ میںموجود ہے، ایک محوری اور بنیادی رول انجام دے سکتی ہے۔کیوں کہ یہ وہ ادارہ ہے جس کو قائم سرسید نے کیا لیکن علماءاور دانشور دونوں اس کے سالانہ اجلاسوں میں یکجا ہوکر ملت کی تعلیمی ترقی کی منصوبہ بندی کرتے رہے۔ظاہر ہے کہ سبھی مسائل حل نہیں ہوجائیں گے مگر اس سمت میں ایک مثبت پیش قدمی ضرورہوگی ۔ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ عدالتوں میں جو مقدمات ہیں ان کو بھی سماجی سطح پر ختم کیے جائیں۔
 سرسیداحمدخاں کی ایک اہم خوبی یہ تھی کہ وہ رجال کارکی اجتماعی کوششوں کو بے حدسراہتے تھے اوران کی کوشش ہوتی تھی کہ افرادکارکو مجتمع کیاجائے اوران کی صلاحیتوں کو بروئے کارلایاجائے، توکیوں نہ ہم ہرسال سرسید ڈے کے موقع پر افرادکو مجتمع کریں اورا ن کے سامنے ملک وملت کی خیروفلاح کاایجنڈاپیش کریں۔ یاد رکھئے کہ سرسید نے طرح طرح کی صلاحیتوں کو ایک ساتھ جوڑاتھا تبھی علی گڑھ تحریک برپاہوپائی تھی ۔انہوں نے الگ الگ صلاحیتوں کے لوگوں کوملک کے کونے کونے سے علی گڑھ میں جمع کیاتھا تبھی تعلیم، تدریس ،علم وادب ،تصنیف وصحافت کے میدان میں الگ الگ قسم کی انجمنیں قائم ہوگئی تھیں جن کی روشنی عرصہ تک پھیلتی رہی اور اس کی خوشبوآج بھی ہم محسوس کررہے ہیں ،اس لیے اب بھی ہماری جانب سے سرسیدکو یہ بہترین خراج عقید ت ہوگا کہ ہم لسانیات کے افرادکو مجتمع کریں،سائنس وٹکنالوجی کی شخصیتوں کی کوئی انجمن تشکیل دیں اور علم وتحقیق کے میدانو ںکے افرادکارکے لیے کوئی ایجنڈامتعین کریں ،اس طرح آج بھی ہم سرسید کے مشن کو زندہ کرسکتے ہیں۔ 
  سرسیدکی شخصیت ہمہ جہت تھی ،ان کی فکر کاکینوس نہایت وسیع تھااور عملی طورپر وہ نہایت چاق وچوبنداور فعال تھے ۔ان کی زندگی کے ہردورمیں نئی رعنائی اور نیاامنگ تھا ،وہ کسی آن بھی غیرمتحرک رہنا پسندنہیں کرتے تھے بلکہ ہرلمحہ کو بروئے کارلاناچاہتے تھے ،یہ ایسی خوبیاں تھیں جو انسان کو عظیم بناتی ہیں۔آج ہمیں سرسید کی ان تمام خوبیوں سے فیض حاصل کرناچاہیے۔
 سرسید ہمیشہ نئی نسل کو مخاطب کیا کرتے تھے، ان کو امید تھی کہ نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے ذریعے ایک عہدکی تعمیر کی جاسکتی ہے، چنانچہ سرسید کا مخاطب اکثر نئی نسل اور نوجوان ہوا کرتے تھے اور یہ سچ ہے کہ نوجوانوں نے ان کی باتوںپر توجہ بھی دی جس کے نتیجے میں انہوں نے جدیدتعلیم کے میدان میں ایک انقلاب برپا کیا۔ آج ہندوستان کی خوش نصیبی ہے کہ یہاں سب سے زیادہ نوجوان پائے جاتے ہیں اورسچائی یہی ہے کہ نوجوان ہی ا س ملک کاسب سے بڑااثاثہ ہیں،اگر آج کے نوجوانوں کو سرسیدکے مشن سے جوڑاجائے توآج بھی انقلاب برپاہوسکتاہے۔
 سرسیدکے مشن اوروژن کو عام کرنے اورانہوں نے جوخواب دیکھاتھاان کو شرمندہ ¿ تعبیرکرنے کے لیے سرسیدکے نام لیوا اورفضلائے علی گڑھ کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ دنیا کے تما م برِّاعظموں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فیض یافتہ پائے جاتے ہیں اور اہم عہدوں پر بھی فائزہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم سرسید کے مشن کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ اگر آج ایک نشانے کے ساتھ ہم سرسید کے مشن اور علی گڑھ تحریک کو تیزگام کرناچاہیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہمیں کامیابی نہ ملے، اس لیے آئیے ایک بار پھر ہم ”سرسیدڈے “ پر ڈنرکابھی اہتمام کریں اورنئی فکروتوانائی کے ساتھ ان کے مشن کو لے کرآگے بڑھنے کاعزم مصمم بھی ۔
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)