ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
خصوصی ضمیمہ
یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس وقت دنیا کو بھوک اور افلاس کے چیلنج سے نبٹنے کی راہ دکھانے کےلئے بھارت کے ایک باصلاحیت ماہر اقتصادیات کو سب سے بڑا اعزاز نوبیل انعام دینے کا اعلان ہوا، تبھی گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی) کے آنکڑے سامنے آئے۔ یہ اعداد وشمار فکر مند کرنے والے اور ترقی کے طور طریقوں پر سوال اٹھانے والے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارت 117 ممالک کی فہرست میں 102 ویں مقام پر ہے۔ جبکہ پانچ سال پہلے وہ 55 ویں نمبر پر تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں بھر پیٹ کھانا نہ ملنے والوں کی تعداد کم ہونے کے بجائے تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بر سر اقتدار حضرات کےلئے سوچنے کا مقام ہے کہ بھارت میں بھوک کی حالت سنگین کیوں ہو رہی ہے؟ اس فہرست میں سری لنکا، نیپال، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک ہم سے آگے کیسے ہیں؟ بھارت کی معیشت ایشیاءمیں تیسری اور جنوبی ایشیاءمیں پہلے نمبر پر ہے، لیکن گلوبل ہنگر انڈیکس میں یہ جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے نیچے کیوں؟ کہیں نہ کہیں یہ صورتحال ملک کے اقتصادی وسائل کی تقسیم میں نابرابری کو بھی دکھاتی ہے۔ لبرلائزیشن اور گلوبلائزیشن نے بھی یہاں امیری غریبی کی کھائی کو چوڑا کیا ہے۔
ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس سال 2014 - 2018 کی رپورٹ مختلف ممالک میں بچوں کے کوپوشن کے اعداد وشمار پر مبنی ہے۔ جس میں بچوں کی جسمانی نشوونما اور شرح اموات کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس سے متعلق مرکزی وزارت صحت کے اعداد وشمار اور ہنگر انڈیکس کے آنکڑوں میں کم وبیش یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ہنگر انڈیکس کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کے لوگ بھی غذائیت کے معاملہ میں ہندوستانیوں سے آگے ہیں۔ برکس ممالک میں بھی بھارت اس معاملے میں سب سے نیچے ہے۔ پاکستان اس فہرست میں 94 ویں نمبر پر ہے، جبکہ بنگلہ دیش 88 ویں، نیپال 73 ویں اور شری لنکا 66 ویں نمبر پر ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں دنیا کے تمام ممالک کے کھان پان کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مثلاً لوگوں کو کس طرح کی کھانے کی اشیاءمل رہی ہیں، ان کی مقدار کیا ہے، معیار کیسا ہے اور اس میں خامیاں کیا ہیں؟ آب و ہوا کی تبدیلی (گلوبل وارمنگ) کا کھانے کے معیار پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ اناج میں غذائیت کم ہوتی جارہی ہے۔ یہ دنیا کےلئے اشارہ ہے کہ بھوک کے مسئلہ کو پوری طرح ختم کرنے کےلئے لمبا راستہ طے کرنا پڑے گا۔
کھانے کی بربادی نے بھی اس مسئلہ کو اور سنگین بنا دیا ہے۔ رات کا کھانا صبح کو باسی سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے آس پاس ہی کئی لوگ ایسے ہیں جنہیں دن میں ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہوتا، وہ دن بہ دن بھوک سے مر رہے ہیں۔ اسی سال 26 جنوری کو اتر پردیش کے مرادآباد سے پینتالیس سالہ امیر جہاں کے بھوک سے دم توڑنے کی دل سوز خبر سامنے آئی تھی۔ اسے اتنا کم کھانا ملتا تھا کہ اپنے تین بچوں کو کھلانے کے بعد اس کی بھوک مٹ سکے۔ بھوکا رہنے کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی۔ وہیں دوسری طرف ہر سال 670لاکھ ٹن کھانے کی اشیاءبرباد ہورہی ہیں۔ ایک سرکاری اسٹڈی کے مطابق برطانیہ کی کل پیداوار کے برابر اناج بھارت میں مناسب رکھ رکھاو کی کمی کی وجہ سے برباد ہو جاتا ہے۔ یعنی بانوے ہزار کروڑ روپے کی کھانے کی اشیاءہر سال برباد ہورہی ہیں۔کھانے کی اشیاءکی یہ اتنی بڑی بربادی ہے کہ اس سے پورے بہار کی آبادی کو ایک سال کھلایا جاسکتا ہے۔
بھوک ترقی یافتہ اور ترقی پذیر تقریباً ہر ملک کا مسئلہ ہے۔ دنیا میں پیدا کی جانے والی کھانے کی اشیاءمیں سے قریب آدھی خراب ہو جاتی ہیں۔ زیادہ دن نہیں ہوئے جب سرکاری نظام کی کاہلی دیکھ کر بھارت کے سپریم کورٹ کو اہل اقتدار سے کہنا پڑا تھا کہ اناج سڑانے سے اچھا ہے کہ غریبوں میں بانٹ دیا جائے۔ عدالت کی پھٹکار کے باوجود حالات بد سے بدتر ہی ہوئے ہیں۔ اناج آج بھی سڑتا ہے اور بڑی آبادی عدم غذائیت کی شکار ہے۔ ہمارے یہاں بھک مری میں کمی کےلئے مرکز اور ریاستی حکومتوں کی تمام پالیسیاں موجود ہیں لیکن زمینی سطح پر ان کے نتائج نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ان یوجناوں پر اربوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں مگر ان کا پورا فائدہ غریبوں تک نہیں پہنچ پاتا۔ یہی
وجہ ہے کہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو کھانا نصیب نہیں ہو رہا جبکہ سستا اناج دینے کے وعدے پر دہائیوں سے ووٹ مانگے جا رہے ہیں۔
بھک مری میں عوامی نظام تقسیم (پی ڈی ایس) میں بدعنوانی کا بھی دخل ہے۔ یہ نظام غریبوں کو کم قیمت میں اناج مہیا کرانے کےلئے بنا ہے، لیکن آج ملک بھر میں قریب دو کروڑ فرضی کارڈ بنے ہوئے ہیں، جن کے ذریعہ پی ڈی ایس کا اناج ضرورت مندوں تک پہنچنے کے بجائے کسی اور کی جھولی میں پہنچ رہا ہے۔ اس اناج کی پہلے بھی کالا بازاری ہو رہی تھی آج بھی ہو رہی ہے۔ جھارکھنڈ میں سرکاری راشن کی دوکان سے غلہ نہ ملنے کی وجہ سے کئی موتیں ہو چکی ہیں۔ بھک مری مٹانے پر سرکار کا جتنا خرچ ہو رہا ہے وہ لوگوں کو وسائل مہیا کرانے پر خرچ کیا جاتا تو آج حالات کچھ اور ہوتے۔ مرکزی حکومت کے ہر بجٹ میں اقتصادی و سماجی طور پر پسماندہ کو اوپر اٹھانے کےلئے کثیر رقم مختص کی جاتی ہے اور اس کا خوب شور مچایا جاتا ہے، لیکن عوامی سطح پر اس کے نتائج دیکھائی نہیں دیتے۔
ترقی کی چمک، تیزی سے بڑھتی معیشت کا نشہ اور دوسری طرف غریبی، بھک مری کا کلنک - بھارت کی یہ متضاد شبیہ باہر کسی کو بھی سوچ میں ڈال دیتی ہے۔ کیوں کہ بھارت ہنگر انڈیکس میں جنگ سے متاثر یمن سے بھی نیچے ہے۔ بلٹ ٹرین کا خواب سنجوتے بھارت نے دوسرے ممالک کے سیارے خلا میں نصب کرنے کی صلاحیت تو حاصل کر لی لیکن غریبی اور افلاس کی لعنت سے نجات حاصل نہیں کر پایا۔ اس کی وجہ وسائل کی تقسیم میں نہ برابری اور عزم کی کمی ہے۔ نابرابری پر جاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ 2017 میں بھارت کی مجموعی پیداوار (جائداد) کا 73 فیصد حصہ ملک کے سب سے امیر ایک فیصد لوگوں کے پاس گیا۔ امیروں کے ہاتھوں میں قید پونجی نہ بازار میں آتی ہے اور نہ ہی وہ ترقی اور معیشت کا حصہ بن پاتی۔ اس سے ملک دو حصوں میں بٹ گیا ہے، ایک برسراقتدار طبقہ امیر لوگوں کی چمک دمک دکھا کر ملک کی ترقی کی کہانی کا دھندھورا پیٹ رہا ہے۔ جس کی بنیاد پر بھارت کی ترقی کا ذکر پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ لیکن دوسری طرف بھک مری اور غریبی کا اندھیرا ہے۔ جس کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔ بس ایسا لگتا ہے کہ حکومت ان غریبوں کو کسی طرح زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ ان کو روزی روٹی کے لئے مستقل وسائل فراہم کرنا نہیں۔ ملک کی مکمل ترقی تبھی ممکن ہے جب اس دوڑ میں غریب بھی شامل ہوں۔ ان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ وسائل تک ان کی رسائی آسان ہو، لاچاری ختم اور آگے بڑھنے کے لئے ہو ہمت افزائی۔ تاکہ ملک سے بھک مری اور کوپوشن کا داغ دھل جائے۔